انور مقصود
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر کوے کے بچوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بیعے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی پہلی مچھلیاں اسے پڑوسی مان لیتی ہیں
کوئی طوفان آجائے کوئی پل ٹوٹ جائے
تو کسی لکڑی کے تختے پر گلہری، سانپ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
خداوندا جلیل و معتبر دانا و بینا منصف و اکبر
میرے اس شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر