برسلز (حافظ اُنیب راشد ) یورپین پارلیمنٹ کے مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والے 14 ارکان نے یورپین قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا نوٹس لے۔ ان ارکان نے یہ مطالبہ یورپین کمیشن کی صدر ارسلا واندرلین اور یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل کے نام تحریر کردہ اپنے خط میں کیا۔ ’’جموں و کشمیر میں انسانی حقوق اور انسانی صورتحال‘‘ کے موضوع پر لکھے گئے خط کے تحریر کنندگان میں شامل فابیو ماسیمو کستالدو ایم ای پی، سبرینا پیگدول ایم ای پی، کارنس پگدیمو کاسموجا ایم ای پی، انتونی کون ایم ای پی، کلارا پوساتی ایم ای پی، اوجینیا رودریگوز ایم ای پی، ایدویا ولانوواروئیز ایم ای پی، پرنیندوبارینا ایم ای پی، لورانت ونسز ایم ای پی، پئیر لاروتورو ایم ای پی، برانڈو بینئیل ایم ای پی، کیرن میلچوئر ایم ای پی، ہاوئیر نارٹ ایم ای پی اور مانئیولا رینا ایم ای پی نے یورپین کمیشن اور یورپین خارجہ امور کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ خط ایک طویل عرصے سے حل نہ ہوسکنے والے تنازعہ کشمیر کی وجہ سے کشمیری عوام کے خلاف شدید اور منظم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ مبذول کرانے کیلئے لکھ رہے ہیں۔ اس مسلسل تنائو کے باعث مقبوضہ کشمیر کے عوام گذشتہ 7 دہائیوں سے اپنی آزادی اور انسانی حقوق سے محرومی کے ناقابل برداشت دبائو کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ جس کا اظہار بہت سی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹس میں ملتا ہے۔ ان ممبران پارلیمنٹ نے کہا کہ 5 اگست 2019 ، جب سے انڈیا نے سٹیزن شپ ایکٹ میں ترمیم کی ہے وہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی بے چینی کو سیاسی ذریعے سے حل کرنے کی بجائے اسے صرف طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2021 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2019 میں انڈیا کی جانب سے جموں کشمیر کا سٹیٹس واپس لیے جانے کے بعد سے انڈین حکام نے UAPA قانون کے تحت صحافیوں، انسانی حقوق کیلیے کام کرنے والے اور دیگر کارکنوں کے خلاف کاروائیاں کی ہیں، ان میں سے 36 صحافیوں کو تفتیش، دھمکیوں اور چھاپوں کے علاوہ جسمانی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی 2021 میں انہیں 85 مرتبہ انٹرنیٹ کی بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا جو دنیا میں سب سے زیادہ مرتبہ پابندی ہے۔ اپنے خط میں ان 14 ممبران نے یورپین قیادت کو مزید بتایا کہ ان کے یہ اقدامات کشمیر میں بغاوت کو ختم کرنے اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری لانے کیلئے کیے جارہے ہیں اور اس سے صورتحال میں بہتری آرہی ہے جبکہ کشمیری اس صورتحال میں انڈین ریاست سے دور ہورہے ہیں اور مزید نوجوان باغی گروپوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ جس کے باعث عام آدمی پہلے سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ کچھ مہینوں کے دوران 13 مسلمان اور 6 ہندو سویلین ان ملیٹینٹ گروپوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آرمڈ فورسز کے خصوصی اختیارات کا قانون جو کہ عام آدمی کے تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا، اس کے انڈین فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں کی جانب سے ہی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے لیے استعمال کی زیادہ شکایت آرہی ہے اور اس پر انہی کوئی سزا بھی نہیں ملتی ۔ ملزموں کو سزا دینے میں یہ ناکامی انسانی خود انڈین قانون اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ممبران نے لکھا کہ اسی دوران 2021 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر جیسی مثبت بات بھی ہوئی ، ایسے اچھے اقدامات بھی دونوں ملکوں کے درمیان اچھے سفارتی تعلقات کی غیر موجودگی میں طویل عرصے تک استحکام نہیں لاسکتے۔ ان ممبران پارلیمنٹ نے اپنے خط میں تحریر کیا کہ کشمیر دنیا میں سب سے زیادہ فورسز کی موجودگی کا جانامانا علاقہ اور یہ دو نیوکلیئر مملک کے درمیان تنازعے کا بہت زیادہ خطرناک فلیش پوائنٹ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم اس علاقے پر توجہ مرکوز کریں اور انڈیا اور پاکستان کے ساتھ اپنی گفتگو کے ذریعے اس تنازعے کو آگے بڑھنے سے روکیں۔ ان ممبران نے یورپین قیادت سے مزید کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ یورپین یونین اور اس کی ممبر ریاستیں انڈیا کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے تناظر میں اس ڈیڈ لاک کو ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس لیے اپنے اس خط کے ذریعے آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ انڈین حکومت تک ہمارے خدشات پہنچائیں اور اسے کشمیر کے عوام کیلئے بین الاقوامی قوانین پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے کہیں۔ اس کے ساتھ تمام فریقین پر زور دیں کہ وہ تشدد ترک کردیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی تمام سفارتی اور سیاسی کوششوں کا استعمال کرتے ہوئے انڈیا اور پاکستان کے درمیان نارمل تعلقات کی بحالی اور باقاعدہ گفتگو کیلئے انہیں آمادہ کریں۔ اس خط کے تحریر کنندگان نے یورپین قیادت پر واضح کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کی اس سے پہلے کبھی اتنی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بطور ممبران یورپین پارلیمنٹ، ہم دونوں ممالک کے ساتھیوں کے ساتھ پارلیمانی تعلقات مظبوط کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ دوسری جانب ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے لکھے گئے اس خط کو یورپین یونین میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان اور کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے خوش آمدید کہا ہے۔ پاکستانی سفیر نے اس خط کو جہاں اپنے مائیکرو بلاگنگ اکاؤنٹ پر شئیر کیا، وہیں علی رضا سید اور کشمیر کی آواز کو آگے بڑھانے کیلئے کام کرنے والی سنجیدہ تنظیموں نے اسے کشمیریوں کی مسلسل جدوجہد کی کامیابی بھی قرار دیا۔