• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
عمران خان کو نیا بیانیہ تراشنے میں کمال کا عبور حاصل ہے جو خود کرتے ہیں، اسی بات کو سیاسی مخالفین کو گناہ کبیرہ بناکر ان کے گلے کا پھندہ بناکر دکھانے کا ہنر تیزی سے سیکھا ہے ، ان کے ماننے والوں کو بھی داد دینی پڑتی ہے جنہیں عمران خان کے دیئے ہر چورن سے بہت افاقہ محسوس ہونے لگتا ہے، پہلے سازش اور مداخلت والا سودا خوب بیچا، اس سے پہلے تبدیلی آئے گی نہیں، آگئی ہے کا بیانیہ چلایا اور وہی75برس سے گھسا پٹا نظام ماننے والوں کو نیا پاکستان نظر آنے لگ گیا، مجھے بچپن میں ایک ڈبے میں بچوں کا سردے کر انہیں مکہ ، مدینہ کی سیر کرانے والا یاد آگیا جو چابی گھما کر بچوں کو ڈبے میں دکھاتا، پھر یقین دلا دیتا کہ تم نے واقعی اس ڈبے میں سے مکہ، مدینہ کی سیر کرلی ہے، بس نیا پاکستان بھی اسی ڈبے والے مکہ، مدینہ سے ملتی جلتی چیز ہے جسے عمران خان کے پیروکار حقیقی مکہ، مدینہ سمجھنے لگے ہیں، اب آج کل ممنوعہ فنڈنگ یا غیر ملکی فنڈنگ کا بیانیہ زور و شور سے فضائوں کو گرمائے ہوئے ہے، ہم اس فنڈنگ پر کسی تفصیل میں جانے سے پہلے اس قسم کی فنڈنگ پر کچھ دنیا کی بڑی جمہوریتوں کی بات کرتے ہیں تاکہ ہمیں ایک تقابلی جائزہ مل سکے، ویسے تو یہ بیرونی فنڈنگ یا غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ صریحاً اس ملک کے رائج قوانین سے جڑا ہوا ہے، اگر کسی ملک کا قانون کسی کام سے منع کرتا ہے تو وہ اس ملک کے لوگوں کے لیے غیر قانونی ہی کہلائے گا اور اس پر قانون اپنا راستہ بنائے گا مثلاً امریکہ میں اسلحہ رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، آپ بازار سے جاکر اسلحہ خرید سکتے ہیں جس طرح روزمرہ کی گروسری کی شاپنگ کرتے ہیں، وہاں کسی کی گاڑی میں اسلحہ پڑا ہو تو قانون حرکت میں نہیں آتا لیکن برطانیہ ایسا نہیں ہے، یہاں اسلحے کی رپورٹ کی ایک فون کال پر ہی پولیس کے ٹرک اور گاڑیاں چند منٹوں میں موقع پر پہنچ جاتی ہیں اور علاقے کا محاصرہ کرلیتی ہیں، پاکستان کی مثال اس لیے نہیں دی کہ گوکہ پاکستان میں بھی پولیس غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی یا رپورٹ پر متحرک تو ہوجاتی ہے لیکن اسے منٹ نہیں گھنٹے لگتے ہیں کیونکہ پہلے موقع واردات کی معاشی تخمینہ سازی کی جاتی ہے، برطانیہ میں سیاسی پارٹیوں کیلئے فنڈنگ کے سخت قوانین اور ضوابط موجود ہیں، یہاں پاکستان کی طرح سیاست کا بازار نہیں لگتا، یہاں کروڑوں خرچ کرکے ہفتے میں دس، دس جلسے نہیں کیے جاتے، بلکہ پُرتعیش سیاسی میٹنگ کی جواب طلبی ہوجاتی ہے، آپ اس بات سے سمجھ سکتے ہیں کہ گزشتہ برس2021ء میں برطانیہ کی مجموعی طور پر24پارٹیوں نے11ملین پائونڈ کا چندہ اکٹھا کیا، ان میں سب سے بڑی بلکہ95فیصد رقم پارٹی ممبرز کی ماہانہ فیس سے اکٹھی ہوتی ہے جوکہ بذریعہ بینک اکائونٹ ہی ممکن ہوتی ہے، پانچ پونڈ سے لے کر زیادہ سے زیادہ ساڑھے سات ہزار پائونڈ تک کا چندہ دیا جاسکتا ہے، اس سے زیادہ کسی سے پارٹی چندہ قبول نہیں کرسکتی اور دینے والے کو اس رقم کے ذرائع وغیرہ ڈکلیئر کرنے پڑتے ہیں، البتہ لیبر لاز اور ٹریڈ یونینز کے قوانین اور ضوابط اس سے مختلف ہیں لیکن سالانہ آڈٹ اینڈ اکائونٹس سے کوئی بھی تنظیم مبرا نہیں ہوتی، اگر کوئی لاکھوں پونڈز پر مشتمل رقم چوری چھپے پارٹی کو دینے کی کوشش کرے اور وہ بات لیک ہوجائے تو وہ پارٹی خاصے بڑے عذاب میں مبتلا ہوجاتی ہے، اس کے مقابلے میں انڈیا میں2018ء میں لوک سبھا نے ایسا قانون بنا دیا تھا جس کے تحت سیاسی پارٹیاں ہر طرح کا قانونی پیسہ چندے کی شکل میں لے سکتی ہیں، غیر ملکی بزنس وغیرہ بھی چندہ دے سکتے ہیں، امریکہ میں بھی آپ پارٹی کو تو غیر ملکی فنڈنگ نہیں کرسکتے، البتہ دوسری تنظیموں کے ذریعے پارٹی کی سرگرمیوں پر خرچ کرایا جاتا ہے، بات ہورہی تھی پاکستان میں تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ یا غیر ملکی فنڈنگ کی تو اس کا الیکشن کمیشن سے جو فیصلہ آیا ہے، اسے حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر تو کردیا ہے لیکن پاکستان کی عدالتیں جس طریقے سے کام کرتی ہیں، اس میں کچھ بھی کہنا حتمی نہیں ہوتا۔ البتہ عمران خان اپنے پیروکاروں کو اب جس بیانیے پر اکسا رہے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر پر اتنا دبائو بڑھا دیا جائے کہ دوسرے ادارے بھی خوف کھانے لگیں ، عمران خان کو اس بات کا احساس تو ہے کہ اس فیصلے کے آنے کے بعد عمران خان کی جو اس کے پیروکاروں میں ایمان داری اور سچائی کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اس ساکھ کو شدید دھچکہ لگا ہے، یہ سوچ بھی پیدا ہوئی ہے کہ اگر وہ غیر ملکی فنڈنگ پر اتنے جلسے، جلوس کرتا ہے تو پھر یقیناً دال میں کچھ کالا ضرور ہے، ضرور غیر ملکیوں کے چندہ دینے میں سیاسی یا اقتصادی مفادات پنہاں ہوں گے، اب تمام حقائق و شواہد جوکہ پی ٹی آئی کے ہی سابق اہم عہدیدار اور عمران خان کے قریبی ساتھی اکبر ایس احمد نے الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیے ہیں۔ اب سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ صادر کرے گی۔
یورپ سے سے مزید