اسلام آباد (اے پی پی) سپریم کورٹ میں سندھ بلدیاتی انتخابات کیس میں ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے آرٹیکل 10 ون کو کالعدم قرار دیا جائے۔
پیر کو یہاں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھائے کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومت کی حد بندی کا پابند کیسے ہے؟ الیکشن کمیشن کے پاس تو الیکشن ایکٹ کے تحت اختیار ہے کہ حلقہ بندیاں کر سکے۔
الیکشن کمیشن اپنے آئینی اختیارات کو لوکل گورنمنٹ قوانین میں ضم نہ کرے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ایک صوبے میں مختلف طرح کی حد بندی کرتا ہے دوسرے میں مختلف؟۔
اپنے دلائل کے دوران ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی الیکشن دو مرحلوں میں کرانے کا شیڈول بنایا ہے جسکے تحت پہلے مرحلہ میں لوکل باڈیز انتخابات ہو چکے ہیں جبکہ کراچی، حیدر آباد، بدین اور ٹھٹھہ میں الیکشن کی پولنگ ہونا باقی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے،اس قسم کی حلقہ بندیوں سے میئر کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے ووٹ کم ہوجائینگے، ہم نے حلقہ بندی اتھارٹی کو ہی چیلنج کر رکھا ہے، حلقہ بندی کمیٹی کے تین میں سے دو رکن صوبائی حکومت کے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اورنگی ٹائون میں ایم کیو ایم کی اکثریت ہے وہاں پر یونین کمیٹی 94 ہزار پر مشتمل ہے جبکہ مومن آباد میں 44 ہزار افراد پر مشتمل یونین کمیٹی بنائی گئی ہے۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ آبادی کے تناسب میں دس فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے سیکشن 10 ون کے تحت 233 یونین کمیٹیز بنانے کا نوٹیفکیشن کیا ہے۔