کراچی (نیوز ڈیسک) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر ʼسرد جنگ یا بلاک کی سیاست میں واپس جانے کی متحمل نہیں ہوسکتی،بڑی طاقتوں کی آپس کی دشمنی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو درپیش اقتصادی اور سماجی چیلنجز میں مزید اضافہ کریگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے غیر ملکی جریدے ’نیوز ویک‘ کو انٹرویو میں کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر چین اور امریکا کے درمیان ثالثی کی پیشکش کو دہرایا۔ انٹرویو میں وزیراعظم نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے، اسلام آباد کیساتھ چین، امریکا اور دیگر دوست ممالک کے تعلقات پر روشنی ڈالی۔ امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاک-چین تعلقات بہت خاص ہیں، پاکستان اور امریکا نے دیرینہ تاریخی اور دوطرفہ تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہے، جو باہمی دلچسپی کے تمام امور کا احاطہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کیساتھ تعمیری تعلقات سے خطے میں امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ ترقی اور رابطہ کاری کو فروغ مل سکتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی تنازعات کے عالمی سطح پر نتائج ہوتے ہیں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کیلئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ʼدنیا سرد جنگ یا بلاک کی سیاست کے ایک اور دور میں جانے کی گنجائش نہیں رکھتی، میرا ماننا ہے کہ کووڈ 19 جیسے وبائی امراض اور یوکرین کے بحران سے متاثرہ عالمی معیشت کیلئے کشیدگی کے سنگین نتائج پیدا ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ ʼپاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پہلے ہی اپنی سماجی اور اقتصادی بہبود کیلئے بیرونی اثرات سے دوچار ہیں، اس لیے ایسے ممالک نہیں چاہتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی آپسی دشمنی سے ان چیلنجز میں اضافہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ تصادم نہیں بلکہ تعاون بین الاقوامی تعلقات کا بنیادی محرک ہونا چاہیے۔ ایک سوال پر کہ کیا پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ʼدنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی پر مبنی ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ʼاگر چین اور امریکا چاہیں تو پاکستان دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ختم کرنے کیلئے مثبت کردار ادا کرے گا، جیسا کہ ہم ماضی میں کر چکے ہیں۔افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ طویل تنازعات سے گریز، محفوظ انخلا یقینی بنانے، تارکین وطن کی آمد کو منظم کرنا اور انسانی امداد کو یقینی بنانے سمیت عالمی برادری کے خدشات پر نسبتاً تسلی بخش انداز میں نمٹا گیا۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ جڑے رہیں، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں مدد کریں۔