• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
جب سے مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ختم اور پی ڈی ایم کی حکومت آئی ہے، طاقت کے اصل محور اور عمران خان کے درمیان گفتگو ختم ہو چکی ہے اورعمران خان کی طرف سے مسلسل جلسوں کے نتیجہ میں بھی مقتدرہ اپنی جگہ سے ہل نہیں ر ہی، اس طاقتور سیاسی ہلچل کا مقصد مقتدرہ اور سول سوسائٹی کو عمران خان کی انتخابات کیلئے آواز کی سپورٹ کیلئے تیار کرنا ہے، دوسرا مقصد یہ بھی ہے کہ عمران خان حکومت کی برطرفی سے پیدا حالات میں جہاں ان کی گرفتاری کی بھی باتیں ہوئیں، سے کامیابی سے نمٹا جاسکے، مسلسل کامیاب جلسے حکومت کی طرف سے بڑھتے طوفان کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں اور پکڑ دھکڑ کی باتیں اپنا زور ختم کر چکی ہیں، اسی حکمت عملی کا دوسرا حصہ زیادہ کھٹن عمل ہے جس کو شروع کرنے سے اوراختتام تک زیادہ وقت چاہئے ،عمران خان کئی اہم جلسے کرنے کے بعد بھی زیادہ پیش رفت نہیں کر سکے ہیں، مرکز میں 62رکنی کابینہ حکومت کی کمزور پوزیشن کی عکاس ہے اور یہ شاید اس ملک کی سب سے بڑی کابینہ ہے، حکومت چلنے کا دارومدار تین ووٹوں پر ہے اور جہاں سے خطرہ نظر آتا ہے ممبر اسمبلی کو وزیر بنا دیا جاتا ہے، یہ انتظام کتنے ماہ اس طرح چلتا رہے گا، قرائن یہی بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ جلد ختم ہونے والا نہیں، پی ٹی آئی چار صوبوں میں اقتدار میں ہے اورن لیگ کسی ایک جگہ کو بھی کنٹرول نہیں کرتی جب کہ پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت چلا رہی ہے، ملکی سیاست میں یہ ایک نیا نقشہ ہے جو کئی کیلئے دردسر بنا ہوا ہے، ایک طرف چار صوبے مل کر بھی مرکزی حکومت کو لگام دینے میں ناکام پائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ایک کمزور مرکزی حکومت مقتدرہ کی پشت پناہی سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے جس سے سیاسی نظام کی کمزوریاں واضح ہوتی ہیں، بڑی جماعتوں کے قائدین ملکی امور پر ایک دوسرے سے انگیج ہونا پسند نہیں کرتے تو ان حالات میں ملکی مفاد کی خاطر مقتدرہ کی مداخلت قابل فہم عمل ہو سکتی ہے، مقتدرہ کی مداخلت سے میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آرمی رول لگ جائے لیکن جب تمام ترتیبیں ناکام ہوتی نظر آئیں تو حکومت میں بیٹھی جماعتوں اور اپوزیشن کا کردار ادا کرتی جماعتوں کی چند روزہ کانفرنس بلا کر ملک کو درپیش مسائل پر راضی کرنے کیلئے کوشش کرنا ایک قومی فریضہ کا درجہ حاصل کر چکی ہے، مقتدرہ اس اہم قومی منصب کی ادائیگی میں دیر نہ کرے، ایسی کسی کانفرنس کا ایجنڈا صرف انتخابات کے حوالہ سے ہونا چاہئے۔عمران خان کو ایسی کسی کوشش کی حمایت کرنی چاہئے بلکہ اس کے انعقاد کیلئے بھرپور تعاون کرنا چاہئے، آرمی چیف کو اس موقع کیلئے ایک مضبوط ضابطہ اخلاق جاری کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ کوئی بھی رہنما موضوع سے ہٹ کر بات کرکے گفتگو کو الٹی راہ پر نہ ڈال سکے،ن لیگ کی حکومت ہے یا نہیں اور کس طرح کام کر رہی ہے سب کو علم ہے، اسٹیبلشمنٹ نے ملک کو انتخابات کی راہ پر ڈالنا ہے اس میں ناکامی ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ عمران خان جلد انتخابات کیلئے پچھلے چار ماہ سے کوشاں ہیں ان کی یہی خواہش ہے کہ انتخابات درست انداز میں منعقد ہو جائیں، الیکشن کمیشن کی بناوٹ اور دوسرے معترضہ امور پر اتفاق رائے پیدا کرنا حکومتی مشینری کیلئے ناممکن نہیں،بڑی جماعتوں میں سے ن لیگ موجودہ صورتحال میں زیادہ نقصان اٹھا رہی ہے۔ پنجاب میں جتنی دیر پی ٹی اقتدار میں رہے گی وہ صوبہ کے لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوتی رہے گی، الیکشن کے زمانہ میں لوگوں تک رسائی اہم ہوتی ہے، پی ٹی آئی صوبہ میں بڑے پراجیکٹس شروع کرکے اور عام آدمی کی مدد کیلئے اقدامات اٹھا کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کر سکتی ہے، پاکستانی تاریخ میں انتخابات کیلئے ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کے بعد عمران خان نے سب سے زیادہ اور موثر آواز بلند کی ہے اور کر رہے ہیں، ان کا پی ڈی ایم حکومت سے ٹکرائو نہ ختم ہونے کے مرحلہ پر آن پہنچا ہے جس سے باہر نکلنے کیلئے کسی تیسرے فیکٹر کی ضرورت ہے، بتدریج عمران خان کے پاس حکومت کو کوسنے کیلئے مواد کم پڑ رہا ہے، عوام کی بہت بڑی تعداد ٹرک کی بتی کی طرح ان کے آگے چل رہی ہے، کسی نہ کسی مقام اس بتی کو بجھنا ہے، قبل اس کے کہ بتی گل ہو جائے، عوام اور ان کے قائد کو اپنی حکمت عملی تبدیل کر لینی چاہئے،عمران خان کی قیادت میں یہ ہجوم ایک منظم اتحاد کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی آبیاری اور دیکھ بھال کرنا اس کے قائد کی ذمہ داری ہے اگر اگست 2023ء سے پہلے انتخابات نہیں ہوتے اور الیکشن کمیشن کے حوالے سے اعتراضات ختم نہیں ہو پاتے اور مختلف چینلز پر عمران خان کی کردارکشی میں کمی نہیں ہوتی اور عمران خان پر پاکستانی زمین اسی طرح تنگ کی جاتی رہی تو عین ممکن ہے کہ یہ میگا سیاستدان اور پی ٹی آئی انتخابات کا بائیکاٹ کردے، اگرچہ عمران خان اکثر ایونٹس میں حصہ لینا اپنے لئے ایک چیلنج سمجھتے چلے آرہے ہیں تاہم وہ غیر منصفانہ حالات میں کھیلنا درست نہیں سمجھتے، امید ہے پی ٹی آئی کبھی انتخابات سے باہر نہیں ہوگی کیونکہ پاکستانی عوام کیلئے یہ جماعت عمران خان کی قیادت میں وہ آپشن ہے جو کوئی دوسری جماعت نہیں دے سکی ہے، اس کے لوگوں کی بھاری اکثریت متوسط اور پڑھے لکھے طبقہ سے تعلق رکھتی ہے، لوگوں کا تعلق شہروں اور گائوں سے برابر کا ہے اور باالخصوص نوجوانوں کی بڑی تعداد اس جماعت کا سرمایہ ہے، پانچ میں سے اسے تین سال اور چھ ماہ حکومت کرنے کا موقع ملا، اس عرصہ میں عمران خان فلاح عامہ کے چند ہی میگاپراجیکٹس شروع کرسکے تاہم جس وقت ان کی حکومت گئی گروتھ 6.5پر تھی اور روپیہ ڈالر کے مقابلہ میں 170اور 180کے درمیان تھا، مہنگائی اور بیروزگاری ضرور تھی لیکن اتنی نہیں تھی جتنی کہ 62 رکنی کابینہ نے کر دی ہے۔ حالانکہ پی ڈی ایم اتحاد مہنگائی ختم کرنے کے نعرہ پر اقتدار میں آیا ہے، پی ڈی ایم قیادت ’’میں نہ مانوں‘‘ کا رویہ اختیار کرکے ملک کی خدمت نہیں کر رہا، انتخابات کا ہونا ایک قومی مسئلہ ہے اور انتخابات ہو جانے سے کسی کی ناک اونچی یا نیچی نہیں ہو جاتی، اگر اس سیاسی گروہ کو عمران خان سے نفرت اور چِڑ ہے کیونکہ وہ انتخابات کی بات کرتا ہے تو ان کو بھی کسی مینڈیٹ کے بغیر ملک پر حکمرانی کا حق نہیں ہے، یہ پی ڈی ایم کی بلیک میلنگ ہے کہ کابینہ ارکان کی تعداد 62 ہو گئی ہے، ایک سیٹ والا جو افواج پاکستان کو گالیاں دیتا ہے آج کابینہ میں بیٹھا ہوا ہے، یہ اس کی جمہوریت اور افواج پاکستان سے غداری ہے اگر ریاست ایسی مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتوں کیلئے سہارا بنتی رہے گی تو ملک کا خدا حافظ۔، بات چیت کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی بات صدر مملکت نے بھی کی ہے اور عمران خان حکومت کے ڈائون فال کے بعد صدر عارف علوی کا کردار مثالی چلا آرہا ہے۔ عمران خان سے گزارش ہے کہ آپ جھوٹے سگنلز پر اعتبار کرنا بند کر دیں اور دشمن بنانا بھی بند کردیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جو کچھ کہہ رہے ہیں پر توجہ نہیں دے رہے اس لئے ضروری ہے کہ آپ بھی ایک ’’اتحاد‘‘ تشکیل دیں تاکہ آپ کی آواز زیادہ نمائندہ اور موثر بن سکے، فی الحال پی ڈی ایم حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، آپ پنجاب اور دیگر صوبوں میں عوام کی خدمت کرتے رہیں پھر یہ نہ کہیے گا کہ آپ کو معاملات کی طرف توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملا، آپ کے پاس موقع ہے کہ جلسوں کو ایک طرف رکھ کر صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور جی بی کی بھی خبر لیں، آپ ملک کے بہت بڑے حصہ کے پرائم منسٹر ہیں، یہ آپ کیلئے بہت بڑا عزت کا مقام ہے، آپ کے پاس سنہری موقع ہے کہ چاروں صوبوں میں اچھی حکومت کے ذریعہ عوام کی خدمت کرکے مزید دل جیتے جائیں۔
یورپ سے سے مزید