• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بشکریہ ٹوئٹر
بشکریہ ٹوئٹر

عدالت نے بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کے دوبارہ میڈیکل کا حکم دیتے ہوئے انہیں پیر تک پمز میں رکھنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کچہری میں شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کے معاملے پر سماعت ڈیوٹی جج جوڈیشل مجسٹریٹ راجہ فرخ علی خان نے سماعت کی اور وکلا کے دلائل مکمل ہوجانے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت کا فیصلے میں کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کی حالت ٹھیک نہیں، دوبارہ میڈیکل کرایا جائے، عدالت نے شہباز گِل کو پیر تک پمز میں رکھنے کا حکم دے دیا۔

شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ ابھی شروع ہی نہیں ہوا، عدالت

جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ شہباز گِل کے وکلا کے جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کی استدعا مسترد کرتا ہوں، شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔

عدالت نے فیصلے میں شہباز گِل کا دوبارہ میڈیکل کرانے کا حکم بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں دمہ کا مرض ہے، اس کے ٹیسٹ کرائیں۔

عدالت نے پیر تک شہباز گِل کی میڈیکل رپورٹ دوبارہ جمع کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔

پولیس نے شہباز گِل کے 8 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی

درخواست کی آج ہوئی سماعت میں پولیس نے عدالت سے شہباز گِل کے مزید 8 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ پہلے دو روزہ جسمانی ریمانڈ ہوا تھا آپ 8 دن کی درخواست کیوں لے آئے ؟

عدالت نے پولیس سے سوال کیا کہ آپ شہباز گِل کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کیوں مانگ رہے ہیں ؟

مجھے ماسک دے دیں میں عدالت میں رُک جاؤں گا، شہباز گِل

مجھے ماسک دے دیں میں رک جاؤں گاکمرۂ عدالت میں موجود شہباز گِل نے کہا کہ میرا ماسک مجھے دے دیں خدا کا واسطہ ہے، عدالت نے شہباز گِل سے سوال کیا کہ آپ عدالت میں رہنا چاہتے ہیں؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے ماسک دے دیں میں رک جاؤں گا جس کے بعد شہباز گِل کیلئے عدالت میں آکسیجن سلنڈر بھی پہنچا دیا گیا۔

عدالت نے سماعت کے دوران  استفسار کیا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا دو روزہ جسمانی ریمانڈ ہوا یا نہیں ؟ کیا پولیس دو روز میں تفتیش کرسکی یا نہیں ؟ کیا پولیس نیا ریمانڈ مانگ رہی ہے یا پہلے کی توسیع چاہتی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ کیا تکنیکی طور پر پہلا دو روزہ جسمانی ریمانڈ شروع ہی نہیں ہوا ؟

بیماری آپ نے دیکھ لی یہ جینوئن معاملہ ہے، وکیل شہباز گِل

اس موقع پر فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ بیماری آپ نے دیکھ لی اس کا جینوئن معاملہ ہے، میڈیکل رپورٹ سے بھی لگ رہا ہے تشدد کیا گیا، میں نے کل ڈاکٹر سے پوچھا انہوں نے مجھے بتایا ہے۔

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈاکٹرز کا کہنا ہےجب درد کی کوئی شکایت کرے تو وہ انگلیاں دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں، پولیس نے جو ریمانڈ کا پرچہ دیا ہے اس کے مطابق بھی پولیس مان رہی ہے کہ ریمانڈ مکمل ہوچکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں بھی تفتیش کی تھی کیونکہ ہمیں تو کل رات 9 بجے بطور وکیل ملنے کی اجازت ملی، پیر کو یہ کیس ہائی کورٹ میں بھی لگا ہوا ہے، کوئی شک نہیں کہ 48 گھنٹے پورے ہو چکے ہیں۔

فیصل چوہدری نے مزید کہا کہ آپ کے سامنے ہے شہباز گِل کو ویل چیئر پر آکسیجن سلنڈر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت جسمانی ریمانڈ دیتی ہے تو تفتیشی افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزم کی صحت کا خیال کرے۔

کہیں نہیں لکھا کہ کوئی بیمار ہو تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر

انہوں نے کہا کہ شہباز گِل کو جب داخل کیا گیا تو اس کی طبی معائنہ کیا گیا تھا، عدالتی آرڈر کے بغیر بھی تفتیشی افسر ایمرجنسی طبی معائنہ کراسکتا ہے، کہیں نہیں لکھا ہوا کہ کوئی بیمار ہو تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا۔

دوسری جانب شہباز گِل کے وکیل نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی مخالفت کردی، عدالت نے کہا کہ جو ایڈیشنل سیشن جج کا آرڈر تھا میں نے اس کو دیکھنا ہے ۔

عدالت اصل رپورٹ منگوائے، شہباز گِل

شہباز گِل نے عدالت میں کہا کہ میری اصل رپورٹ وہ نہیں ہیں جو انہوں نے پیش کیں ہیں عدالت اصل رپورٹ منگوائے۔

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ ہائی کورٹ میں جیل کے ڈاکٹر بھی موجود تھے، جیل ڈاکٹر نے عدالت کو بتایا کہ جب ملزم ہمارے پاس آئے تو اس وقت ملزم کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، ملزم کی رپورٹ معمول کے مطابق تھی۔

رضوان عباسی نے بتایا کہ جیل ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ شہباز گِل کو مسئلہ اس وقت ہوا جب عدالت نے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کیا۔

شہباز گِل کے وکیل فیصل چوہدری نے کہاکہ تسلیم شدہ ہے کہ تفتیشی افسر کو اڈیالہ جیل سے شہبازگِل کی حراست دی گئی تھی، ہائی کورٹ کےحکم امتناع کی ضرورت نہیں، عدالت نے کہا پیر کو میرٹ پر سنیں گے۔

عدالت میں اسپیشل پراسیکوٹر نے استدعا کی کہ شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

میرا ماسک مجھے دے دیں، خدا کا واسطہ ہے، شہباز گِل

عدالت نے شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کے معاملے پر وکلا کے دلائل مکمل ہوجانے کے بعد فیصلہ محفوط کرلیا اور کہا کہ اسے آدھے گھنٹے میں سنایا جائے گا جس کے بعد عدالت نے شہباز گِل سے اُن کے دو وکلا کو ملنے کی اجازت دی۔

اس سے قبل جب شہباز گِل کو عدالت لایا گیا تو انہیں ایمبولینس سے اتار کر وہیل چیئر پر بٹھا کر کمرۂ عدالت میں پیش کیا گیا، اس موقع پر اُن کا ماسک اترا ہوا تھا، وہ کھانس رہے تھے اور روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ میرا ماسک لے لیا گیا ہے۔

شہباز گِل کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے

ڈیوٹی جج کے آنے پر ملزم کو کمرۂ عدالت میں پیش کیا گیا، شہباز گِل کی پیشی کے موقع پر کچہری کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

جج کے سامنے پیش کیے جانے سے قبل شہباز گِل کے وکیل فیصل چوہدری عدالت میں موجود تھے، انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کا بیٹا آیا ہے، وہ ایئرپورٹ گئے ہیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آج جمعہ ہے، کوشش کریں گے جلدی سماعت ہو جائے، وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ شہباز گِل بیمار ہیں۔

جج نے وکیل سے استفسار کیا کہ شعیب شاہین آدھے گھنٹے تک پہنچ جائیں گے، جواب میں فیصل چوہدری نے بتایا کہ شعیب شاہین 9 بج کر 15 منٹ تک پہنچ جائیں گے۔

وکیل فیصل چوہدری نے استدعا کی کہ ملزم کو جیل بھجیں اور ہمیں بھی سونے دیں، جج نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کتنے بجے تک پیش ہوجائیں گے۔

فیصل چوہدری نے بتایا کہ سوا 9 بجے سے ایک منٹ اوپر نہیں ہوگا، جج نے نائب کورٹ کو ہدایت کی کہ پولیس کو آگاہ کر دیں ملزم کو سوا 9 بجےپیش کیا جائے گا، اس کے بعد ابتدائی طور پر جسمانی ریمانڈ سےمتعلق سماعت میں سوا 9 بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔

اس سے قبل اسلام آباد پولیس پمز اسپتال کے پچھلے دروازے سے شہباز گِل کو لے کر روانہ ہوئی۔

عدالت لے جاتے وقت شہباز گِل نے منہ پر آکسیجن ماسک لگایا ہوا تھا۔

واضح رہے کہ پمز اسپتال کے طبی بورڈ نے پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کو تندرست، صحت مند اور مکمل فٹ قرار دے دیا ہے۔

میڈیکل بورڈ نے شہباز گِل کے 10 ٹیسٹ اور 6 ایکسرے کے بعد میڈیکل رپورٹ جاری کردی۔

رپورٹ میں شہباز گِل کو مکمل طور پر فٹ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان پر کسی قسم کے تشدد کے ثبوت نہیں ملے، ان کا کورونا ٹیسٹ بھی منفی آیا ہے۔

میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق شہباز گِل کسی بھی وقت اسپتال سے ڈسچارج ہوسکتے ہیں۔

قومی خبریں سے مزید