• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


امریکی بحریہ کی جانب سے ڈولفنز پر لگائے گئے کیمروں کے نتیجے میں سمندری حیات کے متعدد راز سامنے آئے ہیں۔

امریکی بحریہ کی جانب سے زیرِ سمندر بارودی سرنگوں کی نشاندہی اور امریکی جوہری ذخیرے کی حفاظت کے لیے ڈولفنز کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور پھر اِن انسان دوست مچھلیوں کو کھلے سمندر، سان ڈیاگو بے میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اِن ڈولفنز کی نقل و حرکت اور تہہ کے اندر کے راز جاننے کے لیے اِن پر باقاعدہ کیمرے لگا کر چھوڑا جاتا ہے۔

ریکارڈنگ کا سامان ان ڈولفنز کی پیٹھ پر ایسے نصب کیا جاتا ہے کہ ناصرف سمندری تہہ نظر آ سکے بلکہ اِن مچھلیوں کے چہروں کے تاثرات بھی ریکارڈ کیے جا سکیں۔

اِن ڈولفنز سے حاصل ہونے والی ایک نئی ویڈیو میں متعدد دلچسپ سمندری زندگی کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔

متعدد تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ڈولفن مچھلیاں خونخوار نہیں ہوتیں اور نہ ہی جنگلی حیات کی طرح شکار کرتی ہیں جبکہ اِن مچھلیوں پر نصب کیے گئے کیمروں سے حاصل ہونے والی نئی ویڈیوز میں ڈولفنز کو زہریلے سانپوں کا شکار کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔

ویڈیو کے مطابق ایک ڈولفن نے آٹھ انتہائی زہریلے، پیلے پیٹ والے سمندری سانپ (Hydrophis platurus) کھائے۔

ویڈیو میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈولفن 200 سے زائد مچھلیوں کی اقسام کا شکار کرتی ہے جبکہ خود کو  بدبودار شکار سے بچانے کے لیے پانی سے باہر چھلانگ بھی لگا دیتی ہے، یہ سمندر کی سطح پر الٹا بھی تیرتی ہیں تاکہ اپنی آنکھوں سے سمندر کے اندر کا واضح نظارہ دیکھ سکیں۔

ڈولفن ایک دوسرے کو بلانے اور ڈھونڈنے کے لیے اپنے بینائی  اور آواز دونوں کا استعمال کرتی ہیں۔

اِن ویڈیوز سے ڈولفن کے شکار کرنے اور اِنہیں کھانے کی عادات سے متعلق بھی انکشافات سامنے ہیں۔

ڈولفنز اپنے شکار کو براہِ راست نگلنے کے بجائے پہلے اِنہیں اپنے منہ کے ایک طرف رکھ کر خوب چوستی ہیں اور پھر اپنے طاقتور گلے کے پٹھوں کی مدد سے اِنہیں نگل لیتی ہیں۔

خاص رپورٹ سے مزید