اپنے کچھ پیاروں کی جدائی، دنیا سے رخصتی کا سفر ناقابلِ فراموش ہوتا ہے اور پھر اُن کے جانے کے بعد ان کی یادیں دلوں پر نقش ہوجاتی ہیں، جو آسانی سے بھلائی نہیں جاسکتیں۔ ہم اکثر وبیش تر سفرِ آخرت پر روانہ ہونے والوں کے بارے میں سنتے ہیں، لیکن اجنبی، یا اَن جان لوگوں کی جدائی دل پر اتنا اثر نہیں ڈالتی، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جب اپنی کوئی بے حد پیاری ہستی اچانک دنیا سے چلی جائے، تو اُس وقت دل و دماغ کی کیفیت ہی الگ ہوتی ہے، جسے لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں۔ ایک ایسی ہی ایک سدابہار اور دل کش شخصیت ہماری پھپھو کی بھی تھی، جو اپنے بہترین کردار اور حُسنِ اخلاق کی وجہ سے آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
ہماری پھپھو امیرہ بیگم، عرف بلّو، ابّو کی ماموں زاد بہن تھیں۔ بلّو پھپھو انتہائی خُوب صُورت اور سات بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھیں۔ اُن کی اپنے والد کے ساتھ خُوب جوڑی تھی۔ ہرجگہ ساتھ ساتھ رہتیں۔ اُن کی شادی کم عُمری میں رشتے داروں میں ہوئی اور رخصتی کے فوراً بعد ہی وہ اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہوگئیں۔ جہاں اُن کی تین بیٹیاں اور تین بیٹے پیدا ہوئے۔ پھوپھا اپنی ملازمت کی وجہ سے زیادہ تر شہر سے باہر ہی رہتے، کئی کئی ماہ بعد گھر آتے۔ پھپھو نے ایک طرح سے اپنے تمام بچّوں کی پرورش اکیلے ہی کی۔ تین بیٹیوں کو صحیح عُمر میں بیاہ دیا۔
اگرچہ زندگی میں معاشی تنگی کے باعث اتار چڑھائو بھی آئے، مگر اپنی خود داری کے باعث کبھی کسی پر کچھ ظاہر نہیں کیا۔ اُن کی طبیعت میں ذرّہ برابر بھی بخل نہیں تھا، انتہائی سخی خاتون تھیں۔ انتقال کے بعد بہت سے لوگوں نے انکشاف کہ وہ بہت خاموشی سے اُن کی مدد کیا کرتی تھیں، ہر کوئی اُن کے اخلاق کے گُن گاتا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ ’’وہ ہماری سگی خالہ نہیں تھیں، لیکن سگی خالہ سے بھی بڑھ کر پیار کرتی تھیں۔‘‘ الغرض، بلّو پھپھو ایک ایسے کردار کی مالک تھیں، جو عموماً کہانیوں، ناولز کا حصّہ ہوتا ہے۔
سب کی ہم درد، پورے خاندان میں سب کے دُکھ سُکھ میں ہمہ وقت پیش پیش رہتیں۔ خاندان کی سب بہو، بیٹیاں اور دیگر خواتین ہر طرح کے مشورے کے لیے اُن ہی سے رجوع کرتیں۔ لین دین، رسم و رواج سب طور طریقے وہ سمجھاتیں۔ خاندان میں کہیں کسی کے یہاں بچّہ ہونے والا ہے، تو کیا کریں؟ ہوگیا، تو اُسے پالنے پوسنے کے طریقے، زچّہ بچّہ کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ بھتیجیوں کو سُسرال میں ہر دَم راج کرنے کی دعائیں دیتیں۔ ایک حادثے میں اپنے جوان بھائی کی موت کے بعد سے اُنھوں نے بننا سنورنا، سنگھار کرنا چھوڑ دیا، لیکن بہوؤں کو سنگھار کی خاص تاکید کرتیں۔
اُن کے پاس اپنے دکھڑے سنانے والوں کا ہر دَم ایک ہجوم رہتا۔ کسی کو دنیا سے چلی جانے والی اپنی ماں کی یاد ستاتی، تو اُن کے پاس چلا آتا، کسی کو اپنا کوئی پیارا یاد آتا، تو اُن سے بات کرکے دل ہلکا کرلیتا۔ اور پھر جب وہ خود اللہ تعالیٰ کے پاس چلی گئیں، تو اُن کے لیے رونے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ اُن کی اپنی اولاد اور سگے بھائی، بہنوں کے علاوہ آس پڑوس کے جانے کتنے ہی لوگ اُن کے لواحقین میں شمار ہوگئے۔
بلاشبہ، ہماری بلّو پھپھو بہت خوش اخلاق، خوش مزاج اور ہر ایک کے دُکھ درد میں کام آنے والی ایک انتہائی نیک دل خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (مہوش خولہ راؤ، ٹنڈو الہ یار)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کاربرائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭مفت روٹی والا بابا+ زہریلا کھانا+تین دن سے کچھ نہیں پکایا+ایک مشکل ترین سوال کا جواب+ڈاکٹر اور حکیم+ماہرِ نفسیات+بابا سلیمان کی کہانی+(ظہیر انجم تبسّم ، جی پی او، خوشاب)٭ عذابِ الٰہی، سیاہ بچھو (ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد) ٭آیت الکرسی سے متعلق تین واقعات (گوہر رحمان، فیض باغ، لاہور) ٭ قرآن کی بے ادبی پر ردعمل اور وعظ و نصیحت (جمیل احمد اعوان، ملتان روڈ، لاہور)۔
برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭ منہگائی: اسباب، سدباب (مفتی غلام یاسین نظامی) ٭نوشی گیلانی، محبتوں اور چاہتوں کی شاعرہ(بابر سلیم خان، لاہور)٭ بیٹی (حریم شفیق، اسلام آباد)٭ نفرتوں کے بیج گفتگو کی چاشنی (حافظ بلال بشیر، کراچی)٭ روہڑی کی سیر (ارسلان اللہ خان، لطیف آباد، حیدر آباد)۔