دینِ اسلام پوری انسانی برادری کو ’’عیال اللہ‘‘، ایک کنبہ قرار دیتا ہے، کیوں کہ یہ امن و سلامتی، انسان دوستی اور احترامِ انسانیت کا دین ہے اور پُرامن بقائے باہم اور مذہبی رواداری کا فروغ اسلامی تعلیمات اور اسوۂ نبویؐ کی بنیاد ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر یگانگت، ایک اعتدال پسند عالمی معاشرے کے قیام اورتعصّب و تنگ نظری، انتہاپسندی کے خاتمے کی جتنی ضرورت عہدِ حاضر میں محسوس کی جارہی ہے، اتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔
آج ہر سطح پر بین المذاہب مکالمے کی اشد ضرورت ہے۔تب ہی مذہبی بنیاد پر منافرت کے تدارک و سدّباب اور اس حوالے سے فاصلوں کے خاتمے کی بات بھی کی جارہی ہے اور امن پسند انسانی معاشرے کے قیام پر زور دیا جارہا ہے۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر مسلم امّہ کے خلاف امتیازی رویّوں، مذہبی امتیاز، عالمی قوتوں کی جانب سے تعصّب و عناد پر مبنی جارحیت، مذہبی و نسلی بنیادوں پر امتیازات کا خاتمہ ہو۔
بلاشبہ، اسلام ایک امن پسند دین ہے،دنیا بھر کے ادیان سے موازنہ کیا جائے، تو رواداری، انسان دوستی، وسعتِ ظرفی، عفوو درگزر، تحمّل و برداشت اور اتحاد و یگانگت سے متعلق جس قدر تعلیمات اسوۂ نبوی ؐسے ملتی ہیں، کسی اور دین سے نہیں ملتیں۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج دنیا مذہبی رواداری پر مبنی جس اعتدال پسند معاشرے کے قیام اور انتہا پسندی کے خاتمے کی ضرورت محسوس کررہی ہے، اُس کی اصل تعبیر صرف اور صرف دینِ اسلام ہی پیش کرتا ہے۔ اسی لیے یہ ایک کامل و مکمل دین اور ابدی ضابطۂ حیات ہے۔
عرب دنیا کے مشہور محقّق اور اسکالر، علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں۔ ’’اسلام کی راہ، اعتدال کی راہ ہے، ہر چیز میں اعتدال، تصوّر و عقائد میں، عبادت و زہد میں، اخلاق اور رویّے میں، معاملات اور قانون سازی میں۔ اور اسی راہ کا نام اللہ نے ’’صراطِ مستقیم‘‘ رکھا ہے، یہ راہ اُن دینی اور فکری گروہوں کی راہ سے الگ ہے، جن پر اللہ کا غضب ہوا، یاجو راہ پانے کے بعد کھو بیٹھے اور جن کی راہوں پر غلو اور افراط و تفریط کی چھاپ پڑی ہوئی ہے۔ اسلام کی عمومی خصوصیات میں میانہ روی، اعتدال پسندی اور روشن خیالی ایک اہم ترین خصوصیت ہے۔
نیز، راہِ اسلام کی بنیادی نشانیوں میں یہ وہ اہم نشانِ راہ ہے، جسے اللہ نے دوسری ملّتوں کے مقابلے میں اُمّتِ مسلمہ کا وصف قرار دیا ہے۔‘‘ اسلام نے عبادات، معاملات، اخلاقیات، غرض زندگی کے ہر شعبے اور بندگی کے ہر گوشے میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ کو اخلاقی اصول کے طور پر متعارف کروایا اور انسانوں کو انتہا پسندانہ رویّوں اور یک رُخ رجحانات سے نجات دلوائی۔ اعتدال اور میانہ روی کا اصول اخلاقی زندگی کی رُوح اور انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کا ذریعہ ہے اور یہی دین و دنیا کی کام یابی کی ضمانت بھی ہے۔
انتہا پسندی کو قرآن ’’غُلو فی الدین‘‘ اور دینی مزاج کے خلاف قرار دیتا ہے۔رسولِ اکرم ﷺ نے تکمیلِ دین کے آخری مرحلے ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ کے تاریخی موقعے پر ارشاد فرمایا۔ ’’اور سنو! غلو سے بچنا، کیوں کہ دین میں غلو کرنے والے تم سے پہلے بھی ہلاک کردیے گئے۔‘‘ (ابنِ سعد/الطّبقات الکبریٰ،2/181)۔
حضرت ابنِ عبّاسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’اور خبردار، دیکھو، دین میں غلو سے بچنا، کیوں کہ بے شک، تم سے پہلے لوگ دین میں غلو (انتہا پسندانہ رویّے) کی بنِا پر ہلاک کردیے گئے۔‘‘ (النّسائی/سنن النّسائی، 5/268، احمد بن حنبل/المسند 1/215)۔ اسی طرح متعدد احادیث میں آسانی اختیار کرنے، تنگی اور کجی کی راہ اختیار نہ کرنے، بشارت سنانے اور منافرت کا پیغام عام نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حضرت ابی ثعلبہ الخشنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’بے شک، اللہ تعالیٰ نے اپنے فرائض تم پر فرض کیے ہیں، تو خبردار، تم انہیں ضائع نہ کرنا، اور اپنی حدود کی حد بندی کردی ہے، تو تم اُن سے تجاوز نہ کرنا اور کچھ چیزوں کو حرام کردیا ہے، تو تم اُن کے قریب بھی مت جانا اور کچھ چیزیں دانستہ (بغیر بھول کے) چھوڑ دی ہیں، تو تم اُن میں نہ الجھنا، (اُن سے متعلق بحث نہ کرنا)۔‘‘ (النسائی/سنن النسائی، بیروت، دارالفکر 1987ء، 5/268، احمد بن حنبل/المسند،1/215)-
دوسری طرف یہ حقیقت بھی مخفی نہ رہے کہ اسلام ایک استدلالی اور عقلی مذہب ہے، اس کے تبلیغ و دعوت کے اصول، حکمت و دانش مندی، اعتدال اور میانہ روی اور وعظ و نصیحت پر مبنی ہیں۔ اسلام نے یہ تعلیم بھی دی کہ مذہب رضا، خوش دلی اور خود اختیاری جذبے کا نام ہے۔ اس کا تعلق قلب و رُوح سے ہے، اور قلب و رُوح کو بزورِ شمشیر تسخیر نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان، دراصل یقین کا دوسرا نام ہے، دنیا کی زبردست سے زبردست طاقت جبراً کسی کم زور سے کم زور انسان کے دل میں بھی یقین کا ایک ذرّہ پیدا نہیں کرسکتی۔ قرآن کا ابدی اصول ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں، حقیقت گم راہی سے الگ ہوچکی ہے۔
مذہب کے معاملے میں اسلام یہ اصول واضح کرتا ہے کہ لوگوں کو مذہب کے معاملے میں پوری آزادی حاصل ہو۔ عقل و بصیرت والے چشمۂ نُور سے فیض یاب ہوں اور نافہم، کج رو محروم رہیں۔ اس حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے۔ ’’اور اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ (لوگوں کو زبردستی مومن بنا دے) تو زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے۔ تو کیا پیغمبر! آپﷺ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘(سورۂ یونس/99)۔
درحقیقت اسلامی تعلیمات احترامِ آدمیت اور احترام مذاہب پر مبنی ہیں۔ اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا کہ تم دیگر مذاہب کے معبودوں کو بُرا نہ کہا کرو۔ قرآنِ حکیم نے صاف بیان فرمادیا کہ ’’اے مسلمانو! تم اُن (کفار و مشرکین) کے اُن معبودوں کو بُرا بَھلا مت کہو، جنھیں وہ اللہ کے سوا پُکارتے ہیں۔‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام میں کسی دوسرے مذہب کو بُرا بَھلا کہنا یا طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا ممنوع ہے۔ ابتدائے اسلام ہی سے یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ تمام مذاہب، خواہ وہ آسمانی ہوں، یا غیر آسمانی، ان کے مذہبی رجحانات اور جذبات پر کسی قسم کا طعن کرکے انہیں مجروح نہیں کیا جاسکتا۔
مسلمان جب غالب آگئے، تو فطرتِ انسانی کے سبب ان سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ اور جزیرۃ العرب میں بسنے والے دیگر مذاہب کے پیروکار، جو اُن کے رسول ؐ اور دین کو نہیں مان رہے تھے، مسلسل اُن سے برسرپیکار تھے، تو مسلمان اُن سے بہت نرم برتائو بھی کرتے، تو اُنھیں کم از کم اپنا آبائی دین چھوڑ کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کرسکتے تھے، اس لیے کہ وہ غالب تھے۔
لیکن یہاں پر بھی قرآنِ حکیم نے صاف صاف بتادیا کہ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب، اُن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو مجبوراً مسلمان بنائیں، ارشاد ہوا۔ ’’لا اِکراہ فی الدّین‘‘ دین میں کوئی جبر نہیں۔ یہ ایک بنیادی اصول بتادیا گیا ہے کہ دین کو قبول کرنے یا کسی دین کو رَد کرنے کے معاملے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
اسلامی حکومت کی رعایا (اہلِ ذمّہ/ اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہری) مشرک رہنا چاہتی ہو، تو رہے۔ اہلِ کتاب (عیسائی یا یہودی) یا صابی یا مجوسی کا کوئی بھی مذہب ہو، وہ رکھے،تاہم اسلام انہیں راہِ ہدایت اور صراطِ مستقیم پر گام زن ہونے کے ضمن میں دعوت و تبلیغ کا حکم ضرور دیتا ہے، اس معاملے میں جبر و اکراہ کو کوئی دخل نہیں۔
اسلامی حکومت یا اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا مذہب اس کی حدود میں زندہ نہ رہے، بلکہ اگر کسی بھی حد تک اشتراکِ عمل ممکن ہو، تو اسلام اس پر عمل کی دعوت دیتا ہے۔ کیوں کہ اسلام ایک ایسا دین ہے، جوتمام آسمانی مذاہب کی تصدیق کرتا اور ان کے پیروکاروں کو مکمل آزادی دیتا ہے۔
یہودیت اور عیسائیت کی طرح وہ اپنا دروازہ طالبِ ہدایت کے لیے بند نہیں کرتا، بلکہ ہر وقت کُھلا رکھتا ہے، مگر کسی بھی غیر مسلم کو، جو مسلم حکومت کے زیرِ نگیں زندگی گزار رہا ہو، مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اسلام قبول کرلے۔ اسلامی جمہوریت کی آخری بنیاد شہریوں کے حقوق و فرائض کا تعین ہے، جب کہ اسلامی سیاست کی بنیاد یہ ہے کہ ان حقوق میں دراندازی کا حق کسی کو حاصل نہیں۔
یہ تمام حقوق، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عطا کردہ ہیں اور کسی شرعی دلیل یا حق کے بغیر ان میں سے کسی پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی، یا ان میں کوئی ردّوبدل نہیں ہوسکتا۔ اسلامی ریاست اپنے شہریوں کی دو قسمیں بیان کرتی ہے، مسلمان شہری اور غیر مسلم شہری۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو تمام بنیادی انسانی حقوق، نیز مکمل مذہبی و ثقافتی آزادی حاصل ہے، جب کہ عمومی طور پر جو حقوق حاصل ہیں، اُن میں ٭ جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت سرِفہرست ہے۔ یعنی ریاست ضمانت دیتی ہے کہ اپنے شہریوں کے جان و مال اور عزت و ناموس پر نہ خُود ہاتھ ڈالے گی اور نہ کسی اور کو ڈالنے دے گی۔
اسی حوالے سے ایک طے شدہ اصول ہے کہ ’’جو کوئی ہمارا ذمّی ہو، اس کا خون ہمارے خون کی طرح اور اس کی دیت ہماری دیت کی طرح اور اُن کا مال ہمارے مال کی طرح ہوں گے۔‘‘ اسی طرح تمام شہریوں کو ذاتی ملکیت کی ضمانت دی گئی ہے۔ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی ثابت شدہ قانونی حق کے بغیر کسی شخص کے قبضے سے اس کی کوئی شے حاصل کرے۔ ذیل میں اسلامی ریاست کے تمام تر شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی تفصیل درج کی جارہی ہے۔
٭ شخصی آزادی:…ہر شخص کی انفرادی آزادی محفوظ ہوگی اور اسے یہ ضمانت اس وقت تک حاصل رہے گی، جب تک وہ اپنی آزادی کو دوسروں کی آزادی کے سلب کرنے یا جماعت کے کسی حقیقی مفاد کو نقصان پہنچانے یا خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ ٭رائے اور مسلک کی آزادی… اسلام ہر شخص کو اپنی آزاد رائے رکھنے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ اختلافِ رائے کو خوں ریزی اور فتنہ و فساد کا ذریعہ نہ بنالے۔ اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر و اکراہ سے کام لیا جائے۔
دین کے معاملے میں زور زبردستی نہیں۔ ٭ قانونی مساوات … تمام شہری خواہ امیر ہوں یا غریب، کالے ہوں یا گورے۔ صاحبِ امر ہوں یا مامور، قانون کی نگاہ میں برابر ہوں گے اور سب پر ایک ہی قانون لاگو ہوگا۔ ٭ معاشرتی مساوات … خون، رنگ، نسب، زبان، پیشے، معاشی مقام وغیرہ کی بِنا پر شہریوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا، سب برابر ہیں۔
عزت و شرف اگر ہے، تو صرف علم و تقویٰ کی بِنا پر۔ ٭ بے لاگ عدل و انصاف… اسلامی ریاست ہر شہری کو ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے بچائے گی اور حصولِ انصاف کا انتظام بلا کسی معاوضے کے کرے گی۔ ٭ فریاد، اعتراض اور تنقید کا حق… تمام شہریوں کو یہ حق حاصل ہوگا کہ پوری آزادی کے ساتھ اپنی بات اربابِ اختیار تک پہنچائیں، اپنی مجبوریاں اور مسائل اُنھیں بتائیں، اُن کی پالیسیوں پر اعتراض اور تنقید کریں، اُن کی بات سنیں اور انہیں اپنی بات سُنائیں۔ ٭ اجتماع، تنظیم سازی اور نقل و حرکت کی آزادی… انہیں یہ حق بھی حاصل ہوگا کہ منظّم و مجتمع ہوکر کام کریں اور بلا روک ٹوک ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوں۔ اُن حقوق کے مقابلے میں شہریوں کی ذمّے داری یہ ہے کہ وہ ہر صحیح بات کو قبول کریں اور اطاعت کریں۔
معروف، نیکی اور خیر کے کام میں عدم اطاعت کی روش، اسلامی ریاست کے مزاج کے منافی ہے۔ اسی طرح ان پر ذمّے داری ہے کہ وہ ریاست کی خیر خواہی کریں۔ اسلامی ریاست کے شہریوں پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ ریاست سے تعاون کریں اور اس کی خاطر مالی اور اگر ضرورت ہو تو خود جان کی قربانی پیش کریں۔ بلاشبہ، مندرجہ بالا بنیادوں ہی پر اسلام کا جمہوری نظام قائم ہے۔
رسول اکرمﷺ کی سیرتِ مقدّسہ اور حیاتِ طیّبہ میں مذہبی رواداری، غیر مسلموں سے حُسنِ سلوک اور پُرامن بقائے باہم کی بنیاد پر تعلقات کے حوالے سے بے شمار نظائر اور مثالیں ملتی ہیں، جن سے نہ صرف دورِ حاضر بلکہ انسانی تاریخ کے ہر دور میں بین المذاہب مکالمے کے تحت تعلقات اور معاہدات کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ ان معاہدات میں میثاقِ مدینہ، صُلح حدیبیہ، فتحِ مکّہ، معاہدۂ نجران، مختلف مذاہب سے وابستہ ریاستوں کے غیر مسلم حکم رانوں اور سلاطینِ عالم کے نام رسولِ اکرم ﷺ کے فرامین و مکاتیبِ گرامی کو مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
ہم پیغمبر ِرحمت، محسنِ انسانیت ﷺ کے امّتی ہیں، جنہیں رحمۃ لّلعالمین بنا کر مبعوث فرمایا گیا۔ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہرگوشہ اور اسوۂ حسنہ کا ہر پہلو صبرو برداشت، عفوو درگزر، تحمّل و بُردباری اور رواداری سے عبارت ہے۔ میثاقِ مدینہ، صلحِ حدیبیہ، فتحِ مکّہ، معاہدۂ نجران اور سلاطین عالم کے نام آپؐ کے فرامین اور مکتوباتِ گرامی سیرتِ طیبہ کے وہ تاریخی شاہ کار ہیں، جن سے رسول اکرم ﷺ کی مذہبی رواداری، بُردباری اور انسان دوستی کا پتا چلتا ہے۔
آپؐ نے انسانیت کو دین کا پیغام دینے کے ساتھ دنیا میں امن و رواداری اور احترامِ انسانیت کے کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا، اسی لیے آج قومی اور بین الاقوامی سطح پر مذہبی منافرت، شدّت پسندی اور تعصّبات کے خاتمے کے لیے تعلیماتِ نبویؐ کو عام کرنے، سیرتِ طیبہ کو فروغ دینے اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے کہ یہی ہمارے آج اور ہر عہد کے مسائل کا حل ہے۔ یاد رکھیں، اسلام اور مسلمان احترامِ انسانیت اور امن و سلامتی کے سفیر ہیں۔ سو، اس حوالے سے مغربی پراپیگنڈے کے خاتمے کے لیے علمی اور عملی سطح پر اقدامات کرنے چاہئیں۔
دنیا کو باور کروایا جائے کہ اسلام پُرامن بقائے باہم کی بنیاد پر امن و محبّت اور سلامتی کا پیغام دیتا ہے، یہ کسی مذہب اور طبقے کے خلاف نہیں۔ اس کا پیغام امن وسلامتی اور اخوت و یگانگت ہے، اس کے لیے علمی سطح پر تحقیقی مقالات لکھے جائیں، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے۔
اسوۂ نبویؐ کو عالمی سطح پر عام کرنے کے ضمن میں رسولِ اکرم ﷺ کے سلاطینِ عالم کے نام مکتوبات اور خطوط کے ابدی پیغام کو عام کیا جائے، جن میں انسانیت کو ہدایت اور امن و سلامتی کی دعوت دی گئی۔ مختلف مکاتبِ فکر و مذاہب کو مکالمے کی دعوت دی جائے، دین سے اپنے تعلق کو مضبوط کیا جائے اور اسوۂ رسولؐ کو راہِ عمل بنایا جائے۔