مختصر مختصر
نیرہ نور3 نومبر 1950ء کو موجودہ ہندوستان کے مقام آسام میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان تجارت کے پیشے سے وابستہ تھا جو امرتسر سے آسام کے شہر گوہاٹی میں آ کر آباد ہوا تھا۔ 1958 میں نیرہ نور اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ کراچی آگئیں۔ جبکہ ان کے والد آسام میں ہی رہے۔ نیرہ نور کی شادی اپنے ایک کلاس فیلو شہریار زیدی سے ہوئی۔
شہریار زیدی کی دو بہنیں پاکستان ٹیلی ویژن سے خبریں پڑھتی تھیں۔ نیرہ کی ایک نند ارجمند شاھین اسلام آباد ٹیلی ویژن کی نیوز کاسٹر تھیں جبکہ دوسری نند یاسمین واسطی پی ٹی وی لاہور مرکز سے خبریں پڑھا کرتی تھیں۔ انتہائی فیشن ایبل ماحول میں رہنے کے باوجود، سادہ شلوار قمیص اور دوپٹہ نیئرہ کی پہچان بنا رہا۔ ان کے والد مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور آسام میں ان کا کاروبار تھا۔ نیرہ نور کے دو بچے ہیں ناد علی اور جعفر زیدی دونوں بیٹے گلوکاری میں نام کما رہے ہیں۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارہ، سروں کی ملکہ نیرہ نور کی سانس کی ڈوری 20اگست کو ٹوٹ گئی۔ان کے انتقال کی خبر نے دنیا بھر میں ان کے لاکھوں مداحوں کو اشکبار کر دیا، سوشل میڈیا پر یہ خبر جنگل کی آگ بن کر پھیل گئی، نیرہ نور کا جو نغمہ جسے یاد آیا اس نے اس نغمے کے ساتھ نیرہ کی تصویر اپنی زندگی سے جُڑی کوئی نا کوئی خوبصورت یاد شئیر کر دی، فیس بُک انسٹاگرام، ٹوئٹر، یہاں تک کہ واٹس ایپ گروپس بھی نیرہ کی یادوں سے بھر گئے، تھوڑی دیر کو ہی سہی مگر ایسا لگا جیسے ، سیاست ، مہنگائی، الیکشن، اور بارش کی تباہ کاریوں جیسے عام گفتگو ک موضوعات کہیں بھی اس سریلی فنکارہ کا سوگ منانے چلے گئے ہیں، سادہ مزاج ،کم گو اور اپنے حال میں خوش رہنے والی نیرہ نور سب کو اداس کر گئیں مگر ان کے پیار کرنے والے شوہر شہریار زیدی اور سعادت مند بیٹوں نادِ علی اور جعفر کا دکھ یقیناً بڑا ہے۔
گھر کے باہر، مجھے ان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ ان کی فنکار برادری بھی غم سے نڈھال نظر آئی، بہروز سبزواری، ندیم،قیصر نظامانی، خالد انعم، بُشریٰ انصاری، ایم ظہیر خان، روبینہ اشرف، عمران جاوید علیحدہ علیحدہ ٹولیوں میں کھڑے، میڈیا کو اپنی اور نیرہ نور کی سنہری یادوں سے بہرہ مند کر رہے تھے، اس لمحے مجھے اپنی صحافت کے ابتدائی دور میں پی ٹی وی کے کاریڈورز میں ملنے والی وہ شفیق نیرہ نور یاد آرہی تھیں جو خود کو اخباری نمائندوں سے ایک مخصوص فاصلے پر رکھنے کے باوجود کوئی نا کوئی کام کی بات بڑے دھیمے انداز میں سمجھا جاتی تھیں۔ نیرہ کا خاندان نہ تو فن موسیقی سے وابستہ تھا اور نہ ہی نیرہ نے موسیقی کے حوالے سے کوئی رسمی تعلیم حاصل کی۔
تاہم نیرہ کو دریافت کرنے کا سہرا پروفیسر اسرار کے سر ہے جنہوں نے1968ء میں نیرہ کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں ایک عشائیے کے بعد گاتے سناتھا ، اس کے بعد نیرہ نور نے پہلے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن کے لیے گیت گانے سے اپنے فن کا باقاعدہ آغاز کیا۔ نیرہ نور انتہائی سادہ، کم گو اور شرمیلی گلوکارہ تھیں۔ انہوں نے آغاز سے آخر تک اپنے مخصوص انداز اور معیار کو قائم رکھا۔
ان کا ظاہری رکھ رکھاؤ سادگی کی اعلیٰ مثال ہے۔ نیرہ نور کو ان کے چاہنے والوں نے پہلی بار نیشنل کالج آف آرٹس کے ہرے بھرے سبزہ زار پر اپنے کلاس فیلوز کے جھرمٹ میں بیٹھے دیکھا،وہ اُس وقت کوئی گیت گا رہی تھیں، سننے والو ں کو ایسا لگا جیسے پورا ماحول نیئرہ کی آواز کے سحر میں گرفتار ہوگیاہے۔
این سی اے میں پڑھنے والی دیگر لڑکیوں سے بہت مختلف، سیدھی سادی سی لڑکی تھیں۔ سرمے کاجل سے بے نیاز آنکھیں، سیدھی مانگ، لمبی چوٹی بنائے شلوار قمیص دوپٹہ اوڑھے نظریں جھکائے اپنے آپ میں مگن رہتیں۔ پھر اس کو گاہے گاہے ٹی وی پر بھی دیکھا جانے لگااسی انداز میں گاتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں نیرہ نے بتایا کہ انہیں بڑی مشکل سے اپنے والدین سے ٹی وی پر گانے کی اجازت ملی تھی، ان شرائط پر کہ وہ گاتے وقت نا مسکرائیں گی نا ہاتھ ہلائیں گی اور نا ہی شوخ وشنگ لباس پہنیں گی۔ نیرہ نے اپنے والدین سے کیے گئے اس وعدے کو تا عمر نبھایا، مگر اس کی سریلی آواز نے ہر سننے والے کو اس کا گرویدہ بنا لیا۔
نیرہ نور نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن انھیں بچپن سے ہی کلاسیکی موسیقی اور غزلیں سننے کا شوق تھا۔ وہ غزل گائیکی میں بیگم اختر سے بہت زیادہ عقیدت رکھتی تھیں، موسیقار ڈاکٹر اسرار نے انھیں ایک کالج میں گاتے سنا۔۔۔تو ان کو ٹیلی ویژن پر گانے کی دعوت دی۔ نیرہ نور نے فلموں کے لیے بھی پلے بیک سنگر کے طور پر گیت گائے۔ انہوں نے مہدی حسن اور احمد رشدی کے ساتھ متعدد دو گانے بھی ریکارڈ کروائے۔ ان کا یہ فلمی گیت بہت مشہور ہوا روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناوں پیا۔
ان کی خوبصورت آواز کو "بلبل پاکستان" کا خطاب بھی ملا،نیرہ نور نے بہت زیادہ گیت نہیں گائے مگر جو گایا وہ سننے والوں کے دل میں اتر گیا۔ نیرہ نور ن قومی ترانے بھی گائے۔ مگر ان کے دو ملی نغمے “وطن کی مٹی گواہ رہنا ”اور“ اس پرچم کے سایے تلے ہم ایک ہیں”زبان زد عام ہوے۔ کچھ برسوں سے نیرہ نور نے گلوکاری ترک کر رکھی تھی جبکہ ان کے شوہر شہریار زیدی مختلف ڈراموں میں اداکاری کرتے دکھائی دیتے تھے۔ معروف ترین گیت نگار کلیم عثمانی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ فلم میں ان کا نیرہ نور کی آواز متعارف کرانا ؛ خود ان کے نزدیک بہت اہم ترین کارنامہ ہے۔
نیرہ نور کی زندگی کے دو ایسے گوشے ہیں جنہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں مثلا ”ان کے والد تحریک پاکستان کے اتنے اہم اور متحرک رکن تھے کہ قائد اعظم آسام تشریف لائے تو آپ کے گھر قیام فرمایا قائد کے زیر استعمال رہنے والا بستر انہوں نے ورثے کے طور پر محفوظ کر لیا، جناب ہ یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ نیرہ کو وطن کے ترانوں سے محبت وراثت میں ملی ، دوسرا پہلو روحانیت کا سفر ہے گو گائیکی میں بھی نیرہ نے ہمیشہ تقدس کی پاس داری کی لیکن 10 سال بیشتر اپنی مرضی سے لمحہء حاضر اور روح کے فلسفے پہ چل نکلیں تو گائییکی کو الوداع کہہ دیا۔
نیرہ نور کے مشہور گیت
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
رات بھر جیا مورا مجھے کیوں ستائے
اک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
روٹھے ہو تم ، تم کو کیسے مناؤں پیا
تو ہی بتا پگلی پون ۔ کس کے لئے جلے میرا من
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جلے تو جلاؤ گوری ۔ پریت کا الاؤ گوری
وطن کی مٹی گواہ رہنا
ایوارڈز
حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2005ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
1973 میں نگار فلم ایوارڈ دیا گیا جبکہ حکومت پاکستان کی طرف سے 2006 میں حسن کارکردگی ایواڈ سے نوازہ گیا۔ اس کے علاوہ بھی انہیں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔