• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ایک عجیب مرکب اخبارات میں پڑھنے اور ٹی وی پر سننے کو مل رہا ہے اور وہ ہے قیمت سستی ہونا یا قیمت مہنگی ہونا۔ اسی طرح حال ہی میں کسی ٹی وی چینل پر سنا کہ فلاں شے کا بھاؤ مہنگا ہوگیا ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ مہنگی قیمت نہیں ہوتی، چیز مہنگی ہوتی ہے۔ اسی طرح جو چیز سستی ہوتی ہے، اس کی قیمت’’ سستی ‘‘نہیں بلکہ ’’کم ‘‘ہوتی ہے۔ کسی چیز کا بھاؤ بڑھتا ہے تو وہ چیز مہنگی ہوجاتی ہے اور کسی چیز کا بھاؤ کم ہوتا ہے تو وہ سستی کہلاتی ہے۔ دام گرتا ہے، دام چڑھتا ہے یا بڑھتا ہے، قیمت کم ہوتی ہے یا زیادہ ہوتی ہے، چیز سستی یا مہنگی ہوتی ہے۔

مثلاً یوں کہیں گے کہ: ڈالرکا دام گرگیا ہے، یعنی ڈالر کی قیمت کم ہوگئی ہے۔ ڈالر سستا ہوگیا ہے۔

٭…شِکوَہ اور شِکَوہ

بعض طالب علم ان دونوں لفظوں میں کوئی فرق نہیں کرتے ۔ لیکن دونوں میں بہت فرق ہے۔ شِکوَہ (شِک۔ وَ ہ ) میں کاف ساکن ہے۔ یعنی شِک کو الگ پڑھنا ہے اور ’’وَہ‘‘ کو الگ۔ معنی ہیں : شکایت ،گِلہ۔ یہ عربی کا لفظ ہے۔ اوریہ وہی لفظ ہے جو اقبال کی مشہور نظموں شکوہ اور جواب ِ شکوہ میں ہے ۔شکوہ کرنا بھی اردو میں مستعمل ہے۔ اردو میں شکوہ ہوتا ہے ، شکوہ کیا جاتا ہے یعنی اردو میں شکوہ مذکر ہے۔ اسی جواب ِ شکوہ میں ایک شعر ہے:

کیا کہا ؟ بہر ِ مسلماں ہے فقط وعدہ ٔ حور!

شکوہ ٔ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

اسٹین گاس کی لغت کے مطابق اسے عربی میں شکوۃ بھی لکھا جاتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے لغات ِ روزمرہ میں لکھا ہے کہ اس کے عربی املا میں تو الف مقصورہ (یٰ) ہے یعنی عربی میں شکویٰ ہے لیکن اردو میں شکوہ لکھا جاتا ہے۔ اسٹین گاس سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، غالباً فارسی والوں نے اس کا املا بدل کر شکویٰ سے شکوہ کردیا اور اردو والوں نے فارسی کی تقلید کی۔

لفظ شکوہ کی جمع اردو میں شکوے ہے اور مغیّرہ حالت میں بھی ’’شکوے‘‘ کا لفظ آتا ہے ، جیسے غالب کا شعر ہے :

تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو

حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے

لیکن شِکَو ہ ( شِ ۔ کو۔ہ) الگ لفظ ہے۔ یہ فارسی کا لفظ ہے اور اس میں شین کے نیچے تو زیر ہے اور اسے الگ سے ’’شِ‘‘ پڑھنا ہے ۔ لیکن اس میں واو ِ مجہول ہے یعنی کاف کو ساکن نہیں پڑھنا بلکہ ’’کو ‘‘ کی آواز الگ سے سنائی دینی چاہیے ، اس لفظ کے آخر میں ‘‘ہ‘‘ ملفوظی ہے یعنی اس کا تلفظ واضح طور پر اس طرح کرنا ہے کہ آخر میں ’’ہ‘‘ کی آواز بھی آئے اور ’’کوہ‘‘ سنائی دے ، یعنی اس لفظ کا درست تلفظ شِ ۔ کوہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت کردی جائے کہ اس کا ایک تلفظ ’’ش‘‘ پر پیش کے ساتھ یعنی شُکوہ (شُ۔ کوہ)بھی ہے لیکن اردو میں عام طور پر ’’ش‘‘کے نیچے زیر ہی بولا جاتا ہے ۔ شِکوہ(شِ ۔کو۔ہ) کے معنی ہیں شان و شوکت ، رعب و دبدبہ، جلال ۔

مغل بادشاہ شاہ جہاں کے ایک بیٹے (اور اورنگ زیب عالم گیر کے ایک بھائی) کا نام دارا شِکوہ (شِ ۔کوہ) (Dara Shikoh) ہے لیکن بعض طالب علموں کو دارا شکوہ (شک۔ وہ) بولتے سنا ہے جو غلط ہے۔ اس میں ش کو الگ اور کوہ کو الگ بولنا چاہیے۔

یہ لفظ شِکوہ (شِ ۔کوہ) مرکبات میں بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسے :شان و شکوہ ۔اقبال کا شعر ہے :

تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہ ِ پرویز

دو قلندر کو کہ اس میں ہیں ملوکانہ صفات

غالب نے کہا ہے :

مدح سے ممدوح کی دیکھی شکوہ

یاں عَرَض سے رتبہ ٔ جوہر کھلا

غالب کے اس شعر سے ظاہر ہے کہ اردو میں شکوہ (شِ۔کوہ) مؤنث ہے جبکہ شکوہ (شِک۔وَہ ) مذکر ہے۔