مولانا کامران اجمل
اسلام میں’’جمعہ‘‘کے دن کو افضل الایام اورسیدالایام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ دن اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں افضل ایام میں سے ہے، اسی دن دنیا کو بنایا گیا ، اسی دن آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن دنیا میں بھیجا گیا، اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی،اسی دن قیامت قائم ہوگی، بعض روایات میں ہے کہ جمعہ کے دن ایسی گھڑی ہے کہ جو مؤمن اس وقت دعا کرلے، اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے۔
رسول اللہﷺ اس دن کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے ، اور امت کو اس دن اہتمام کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے ، یہی دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کے بڑے اجتماع میں جمع ہونے کے لیے مقرر فرمایا ہے ، اور ہفتے کے عام دنوں سے ہٹ کر اس دن ایک مستقل نماز کا حکم دیا ہے، جسے ہم جمعہ کی نماز کہتے ہیں۔
چونکہ مسلمانوں کا ایک بڑا مجمع اس دن خصوصیت کے ساتھ یک جا جمع ہوتا ہے ( عام دنوں میں ظہر کی نماز میں بھی مجمع تو ہوتا ہے ، لیکن وہ کسی بھی مسجد یا مصلے میں جماعت کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے ، البتہ جمعہ کی نماز کے لیے جامع مسجد کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے)اس لیے اس دن سے متعلق خصوصی احکام بھی جاری فرمائےگئے ،مثلاً :
۱۔اس دن غسل کرنے کو سنت قرار دیا اور نہ صرف یہ کہ سنت قرار دیا ، بلکہ اس کی تاکید بھی فرمائی ۔۲۔اس دن اپنے اچھے کپڑے پہننے کو سنت قرار دیاگیا۔۳۔خوشبو استعمال کرنے کی ترغیب دی ، اس دن بندہ مومن خوشبو استعمال کرے کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔۴۔ کسی کے کندھے پھلانگ کر جانے سے منع فرمایاگیا ۔۵۔دو افراد ایک ساتھ بیٹھے ہوں ، بلاوجہ انہیں الگ الگ کرکے ان کے درمیان بیٹھنے سے منع فرمایا اور اس قسم کے احکام دیے، جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ، اس لیے جمعہ کے دن کی خصوصیات عام دنوں کی خصوصیا ت سے الگ ہیں اور تاکید کا حال یہ ہے کہ اگر کسی نے جان بوجھ کر جمعہ کی نماز قضاء کی تو اس کا نام منافقین کی فہرست میں لکھنے تک کا تذکرہ بعض کتابوں میں ملتا ہے، اور بعض علماء سے تو یہ تک منقول ہے کہ وہ جمعہ کے دن کی تیاری جمعرات سے ہی شروع فرمادیا کرتے تھے، بعض علماء نے تو تجربےکی بنیاد پر یہ تک لکھ دیا کہ اگر انسان جمعہ کی نماز تو پڑھتا ہے، لیکن اس کے لیے اہتمام نہیں کرتا ، مثلا ًغسل وغیرہ کرنے میں سستی کرتا ہے یا مسجد جلدی جانے کا اہتمام نہیں کرتا (بغیر عذر کے ) تو ایسا شخص ایسے ایسے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو اس کی ہلاکت کا باعث بن جایا کرتے ہیں، اس لیے اس دن خصوصی اہتمام کا حکم بھی ہے اور علماء سے ثابت بھی ہے ۔
جمعہ کے دن اہتمام کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض روایات میں باقاعدہ طور پر جمعہ کے د ن مسجد میں بیٹھنے کے آداب تک منقول ہیں ،مثلا ً : جمعہ کے دن مسجد میں اکڑوں بیٹھنا کہ جس سے نیند آنے کا اندیشہ ہو، اس سے منع فرمایا گیا۔ مسجد میں بیٹھ کر انگلیوں کو انگلیوں میں ڈال کر بیٹھنے سے منع فرمایا کہ کہیں سستی پیدا نہ ہوجائے۔ مسجد میں گفتگو کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ مسجد میں بیٹھ کر گفتگو کرنے والے کو کوئی اجر نہیں ملے گا۔
اہتمام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد عبادت کے لیے ہے ، نماز ، ذکر واذکار کے لیے ہے ، لیکن جب امام خطبۂ جمعہ کے لیے منبر پر آجائے تو اس وقت نماز ، ذکر واذکار ،گفتگو وغیرہ کرنے سے قطعاً منع فرمایا گیا ہے ، بعض روایات میں تو صراحت سے منقول بھی ہے کہ جب امام منبر پر آجائے تو نہ نماز ہے ، نہ گفتگو ہے، بعض علماء نے اس معاملے میں بہت سختی کا مظاہرہ فرمایا ہے،کیونکہ احادیث مبارکہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے ،وہ یہی ہے کہ جمعہ کے دن کے اہتمام کے ساتھ ساتھ امام کے منبر پر آنے کے بعد اہتمام مزید بڑھ جاتا ہے ، اور بات کرنا وغیرہ بالکل ممنوع ہوجاتا ہے، ذیل میں اس حوالےسے چند آداب کو ذکر کیا جاتا ہے جو خاص جمعہ کے خطبہ سے متعلق ہیں او راس میں بسا اوقات ہمارا عمل اس کے یکسر خلاف نظر آتا ہے ، اس لیے اس کا ذکر کرنا لازمی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
۱۔امام کے خطبہ کے لیے منبر پر آنے کے بعد گفتگو کی اجازت نہیں ہے ، یہاں تک کہ اگر کسی کو باتیں کرتا ہوئے دیکھے تو اسے باتیں کرنے سے منع بھی نہیں کرسکتے ، بلکہ خود خاموش بیٹھ کر عملاً انہیں تنبیہ کی جاسکتی ہے ، نہ کہ زبان سے گفتگو کرکے۔
۲۔امام کے منبر پر آنے کے بعد کسی کو سلام وغیرہ بھی نہیں کر سکتے ،عام طور پر ہم سے غلطی یہ ہو جاتی ہے کہ خطبہ کے دوران جہاں بیٹھ جائیں تو خطبہ سننے والے نمازی کو سلام کرکے ان کے خطبہ کو بھی خراب کرتے ہیں اور اپنے خطبہ کو تو ویسے بھی خراب کر چکے ہوتے ہیں، اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔
۳۔دوران خطبہ چلنے پھرنے سے منع فرمایا، بلکہ جوشخص جہاں پہنچ جائے ،مسجد کے کسی بھی حصے میں تو اسے وہیں بیٹھ جانا چاہیے ، رسول اللہ ﷺ ایک بار خطبہ دے رہے تھے کہ کچھ صحابۂ کرامؓ کو چلتے ہوئے دیکھا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو جہاں ہے، وہیں بیٹھ جائے ، اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جو کسی وجہ سے تاخیر ہونے کی وجہ سے مسجد سے باہر تک پہنچے تھے، آپ علیہ السلام کا حکم سن کر باہر ہی بیٹھ گئے ،مسجد چونکہ بڑی نہ تھی، آپ علیہ السلام نے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اے ابن مسعودؓ، مسجد کے اندر آجاؤ ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکے ہاں اس کا کتنا اہتمام تھا کہ دوران خطبہ چلنے پھرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔
۴۔خطبہ جمعہ شروع ہونے کے بعد کسی قسم کے کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے ،لہٰذا اگر کوئی خریداری وغیرہ دوران خطبہ کرتا ہے تو علماء نے اسے مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے، مثلاً مسجد کے دروازے میں آچکے ہیں اور خطبہ شروع ہوچکا ہے اور اب یہ مسواک ٹوپی تسبیح وغیرہ کچھ بھی خریدتا ہے تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
۵۔مسجد میں خطبہ شروع ہونے کے بعد آنا اجر سے محرومی کا باعث ہے ، بعض روایات میں ہے کہ فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں اور مسجد میں آنے والوں کا نام اور وقت لکھتے ہیں، تاکہ اسی کے حساب سے انہی اجر ملے ، لیکن جب خطبہ شروع ہوجاتا ہے تو فرشتے بھی رجسٹر بند کرکے خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں، اس کے بعد آنے والے کی نہ جمعہ کی حاضری لگتی ہے اور نہ جمعہ کا اجر ملتا ہے ، البتہ نماز پڑھنے کی وجہ سے اس پر لازم ہونے والی ذمہ داری سے وہ بری ہوجاتا ہے ، لیکن اگر کوئی مجبوری ہوئی جس کی وجہ سے تاخیر سے پہنچے تو اس وقت گنجائش ہوگی ،کیونکہ جمعہ کی نماز کی ذمہ داری کا ادا کرنا الگ سے حکم ہے جس کا پورا کرنا لازمی ہے۔
۶۔دوران خطبہ جمعہ اگلی صفوں میں جانے کے لیے کندھوں کو پھلانگنا ، کسی مسلمان کے کندھوں کو پھلانگنا ویسے بھی درست نہیں ہے ، کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے ، انسان کے احترام کی وجہ سے رسول اللہ ﷺنے اس سے منع فرمایا ، لیکن جمعہ کے دن مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے اجر کو کسی کو پھلانگ کر نہ جانے کے ساتھ مشروط فرمایا ہے ، اور پھر خود خطبہ کے دوران چلنا پھرنا، گفتگو کرنا منع ہے تو کسی مسلمان کو پھلانگ کر جانے کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے ؟ لیکن اس بات کا اہتمام بھی ضروری ہے کہ جو حضرات مسجد جلدی پہنچ جاتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اگلی صفوں میں بیٹھا کریں، تاکہ بقیہ لوگ بعد میں آکر پچھلی صفوں میں آرام سے بیٹھ سکیں اور انہیں کندھے پھلانگنے کے گناہ میں مبتلا ہونا ہی نہ پڑے۔
۷۔دوران خطبہ مسجد میں چندہ کرنا بھی درست نہیں ہے ، اس لیے کہ اس میں کئی طرح کی خرابیاں ہیں :(الف )چندہ کرنے والا امام کے خطبہ کی طرف مکمل متوجہ نہیں رہ پاتا ،عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگوں کی سنتیں ابھی ختم نہیں ہوئیں اور چندہ شروع ہوگیا ، اب اگر یہ نمازی کا خیال رکھ کر چلنا چاہیں تو اہتمام کرنا پڑے گا اور اس کے لیے توجہ نمازیوں کی طرف ہوگی، امام کے خطبہ کی طرف نہیں ۔(ب)دوران خطبہ جمعہ چلنے سے منع کیا گیا ہے ، اور اس وقت چندہ کرنے کی وجہ سے دوران خطبہ چلنے کا عمل بھی ہورہا ہے جو کسی صورت درست نہیں ہے ۔(ج)خود نمازی حضرات جو چندہ دینا چاہتے ہیں ، اس دیتے وقت میں وہ امام کے خطبہ سے غافل ہوجاتے ہیں ، چاہے وہ مختصر سے وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔(د)دوران خطبہ مخلوق سے مانگنے کا عمل ہے ، جو کسی طرح خطبہ کے دوران درست نہیں ہوسکتا۔ (ھ)غلطی سے اگر کسی نمازی کے آگے سے گزر گئے تو یہ اس سے بڑھ کر گناہ ہے ، جس کے لیے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اگر تمہیں نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ معلوم ہوجائے تو چالیس سال تک کھڑے رہو ،لیکن نمازی کے آگے سے نہ گزرو گے ۔(و)اور بسا اوقات اس میں غلطی یوں بھی ہوجاتی ہے کہ خطبہ سننے والے اپنے خطبہ سننے میں مگن ہوتے ہیں اور ہم بے خیالی میں گزر کر کبھی ان کے پاؤں سے ٹکرا جاتے ہیں ، کبھی ویسے ہی صف تبدیل کرنے کے لیے جاتے ہوئے کندھے کو پاؤں لگ جاتا ہے ، جو ایذاء رسانی کا باعث بنتا ہے۔
اس لیے دوران خطبہ جمعہ چندہ کرنے سے اجتناب لازمی ہے، اگرچہ یہ ہم نمازیوں کی سستی ہے کہ وہ عین خطبہ کے وقت نماز میں پہنچتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کی غلطی کی وجہ سے ہم بھی غلطی کرنا شروع کردیں ، اس لیے مسجد کی انتظامیہ کو اس بات کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دوران خطبہ چندہ کے عمل سے اجتناب کریں، اور جب انسان شریعتِ مطہرہ پر عمل کرنے کی وجہ سے بظاہر اپنا نقصان کرواتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی غیور ہیں ،وہ کبھی اسے نقصان ہونے نہیں دیں گے، اس لیے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے دوران خطبہ چندہ کے عمل سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور مسجد کی خدمت کرنے والے احباب کے جمعہ کی فضیلتوں کو ضائع ہونے سے بچائیں ۔