وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں سرکاری اداروں میں کھیلوں کے شعبے کو بحال کرنے کا اعلان کر کے نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ کھیلوں کے منتظمین کے دل بھی جیت لئے، اداروں میں کھیلوں کے شعبے کی بندش سابق وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے سال ملک بھر میں اداروں میں کھیل کے شعبے اور ٹیموں کو بند کرنے کا اعلان کردیا تھا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں کھلاڑی بے روزگار ہوگئے تھے، جن کھلاڑیوں کو اداروں نے ملازمت پر رکھا بھی تو ان کے آفس کام کرائے جارہے تھے، کم پڑھے لکھے ہیروز کو چپراسی بنادیا گیا۔
جس سے ان کی پریکٹس بہت زیادہ متاثر ہورہی تھی، عمران خان خود اپنے زمانے کے نامور کھلاڑی رہ چکے تھے مگر انہوں نے نے جو فیصلہ کیا تھا ا سے ملک بھر میں کھلاڑیوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا، سابق وزیر اعظم عمران خان کا شروع سے موقف یہ رہا ہے کہ کھیلوں کو ایسوسی ایشنز کی سطح پر فروغ دیا جائے جس سے مقابلے کا جذبہ جنم لیتا ہے، حالانکہ عمران خان نے اپنی زیادہ تر کر کٹ کا ڈومیسٹک سیزن ملک میں اداروں کی ٹیموں سے ہی کھیلا تھا، اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ پاکستان کو قومی سطح پر عالمی معیار کے مرد اور خواتین کھلاڑیوں کی بڑی تعداد اداروں نے دئیے ہیں۔
کرکٹ میں ظہیر عباس، خود عمران خان، ماجد خان، وسیم راجہ، رمیز راجہ، سکندر بخت، وسیم اکرم ، وقار یونس، عاقب جاوید سمیت کئی کھلاڑی اداروں کی ہی مر ہون منت ہے، ہاکی میں پاکستان کسٹمز، پی آئی اے، ئوبی ایل ، حبیب بنک، نیشنل بنک، ایم سی بی سمیت کئی اداروں نے ہاکی، ٹیبل ٹینس، اسکواش، اسنوکر، بیڈ منٹن، ایٹھلیکٹس، ویٹ لفٹنگ، ریسلنگ اور دیگر کھیلوں میں پاکستان کو کئی نامور کھلاڑی مہیا کئے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اداروں کی وجہ سے کھلاڑیوں کو معاشی مسائل کا سامنا نہیں تھا، وہ سکون کے ساتھ کھیل کے میدان میں مالی مشکلات سے بے پروہ ہوکر اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کرتے تھے۔
اداروں کی ٹیموں میں شامل ہونے کے لئے ہر کھیل میں کھلاڑیوں کی دوڑ لگی ہوتی تھی مگر جب سے کھیل کے شعبے میں اداروں کی ٹیموں کی تعداد کم ہوئی ملک میں کھلاڑیوں کی تعداد بھی کم ہوگئی، مقابلے کا جوش اور جذبہ بھی ختم ہوگیا، سوائے کر کٹ کے ہر کھیل زوال کا شکار ہوگیا،کھلاڑیوں کی مالی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا، اداروں نے مردوں کے کھیل کے علاوہ خواتین کے کھیل کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا، انہوں نے خواتین کی ٹیمیں بھی تشکیل دیں، ان اداروں نے اپنے ریٹائر ہونے والے کھلاڑیوں کو کوچنگ اسٹاف میں شامل کرلیا، ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا، پی آئی اے نےجہانگیر خان اور جان شیر خان کو اپنے نئے کھلاڑیوں کی تیاری کے لئے استعمال کیا، پاکستان میں کھیلوں کی ترقی اور فروغ کے لئے پاکستان آرمی، نیوی، ائیر فورس ، پی او ایف ، واپڈا، پاکستان پولیس نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
عمران خان نے جب ٹیموں اور اداروں میں کھیل کے شعبے کو بند کیا تھا تو ان اداروں نے اپنی ٹیموں کو ختم نہیں کیا، واپڈا نے جیولین تھرو کے ہیرو ارشد ندیم ، ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ اور قومی ریسلرز کو تیار کرنے میں جس ذمے داری کا مظاہرہ کیا آج کا نتیجہ کامن ویلتھ گیمز اور اسلامک یک جہتی گیمز میں میڈل کی شکل میں ہمارے سامنے آیا، ملک میں کھیلوں کے اداروں نے نچلی سطح پر کھیلوں کے ایونٹس کو بھی اسپانسرز کئے ، جس سے نچلی سطح پر بھی کھیلوں کی سر گرمیوں کو جاری رکھنے میں مدد ملی، ملک کے نامور کھلاڑیوں نے وزیر اعظم کی جانب سے کھیل کے شعبے کو بحال کرنے کا خیر مقدم کیا ہے کہ، کھیلوں کے حلقوں اور قومی کھلاڑیوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ملک بھر میں اداروں میں کھیلوں کے شعبے کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے۔
ٹاپ ایتھلیٹ ارشد ندیم، قومی ویٹ لفٹر کامن ویلتھ گیز کے گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ، انٹر نیشنل ریسلر انعام بٹ، قومی ہاکی ٹیم کے کپتان عمر بھٹہ، قومی بیڈ منٹن چیمپئن مراد علی، ماہور شہزاد، ٹیبل ٹینس کھلاڑی فہد خواجہ، پرنیا خان، باکسر محمد الیاس اسکواش کے سابق عالمی چیمپئن جہا نگیر خان، جان شیر خان، قومی کر کٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید میاں داد، سابق قومی ہاکی کپتان اصلاح الدین، حسن سردار، حنیف خان کے علاوہ صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن برگیڈیئررخالد سجاد کھوکھر اور سیکرٹری جنرل پی ایچ ایف حیدر حسین نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے ڈیپارٹمنٹل سپورٹس کی بحالی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے کھلاڑیوں کے دل جیت لئے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے سپورٹس کلچر کی بحالی اور کھلاڑیوں کے معاشی مسائل حل کرنے کی جانب ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔محمد حفیظ نے کہا ہے کہ اس فیصلے پر پاکستان اسپورٹس سے وابستہ تمام افراد مبارک باد کے مستحق ہیں، یہ خوش آئند فیصلہ ہے، ڈپارٹمنٹ اسپورٹس کی بحالی سے کھلاڑیوں کو نہ صرف اچھے مواقع ملیں گے بلکہ وہ مالی طور پر بھی مستحکم ہوں گے۔
بیڈمنٹن پلیئر پلوشہ بشیر نے کہا کہ ٹیموں کی بندش سے کھلاڑیوں کو پریشانی تھی، جو نوکریوں پر تھے ان کو کہا گیا تھا کہ وہ روٹین کا کام کریں جس کی وجہ سے وہ اپنی ٹریننگ اور ایونٹس پر توجہ نہیں دے پا رہے تھے جبکہ کچھ کو نکال دیا گیا تھا،کھلاڑیوں کا روزگار کھیل سے ہی وابستہ ہے۔ انہوں نے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ پلیئرز کو مستقل ملازمت دی جائے۔