• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جرائم کی وارداتوں میں موٹر سائیکل کا بے تحاشہ استعمال

یُوں تو جُرم کا ارتکاب کرنے والے جرائم پیشہ افراد مختلف قسم کی سواری استعمال کرکے اپنا ہدف حاصل کرتے ہیں، لیکن ،ان کے لیے سب سے زیادہ جو آسان سواری موٹرسائیکل کی ہے، جس کے ذریعے سے فوری طور پر ٹارگٹ تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے اور اس کے بعد واردات کرنے کے بعد وہاں سے فرار بھی آسانی سے ہوا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی سب سے زیادہ جُرائم موٹر سائیکل پر کیے جاسکتے ہیں، اس کی نمبر پلیٹ تبدیل کرنا یا سِرے سے ہی نمبر پلیٹ نہ لگانا یا اپلائیڈ فار رجسٹریشن کی شیٹ لگا کر گُھومنا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی ہے۔

گوکہ پولیس کی جانب سے اس جانب توجہ سال میں چند روز ہی کی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ کہ کچھ موٹرسائیکلوں کا چالان کر کے خانہ پوری کر دی جاتی ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قتل کی واردات ہو یا بچوں یا بڑوں کے اغوا کے واقعات اس کا موثر ذریعہ موٹر سائیکل ہے، جس کے ذریعے یہ وارداتیں کی جاتی ہیں، موٹر سائیکل پر ضلع شہید بینظیر آباد میں قتل کی کتنی وارداتیں ہوئی ہین، اس بارے میں یہ اعداد و شمار سامنے آئے ہیں کہ قاتلوں نے موٹرسائیکل کواکثر وارداتوں میں استعمال کیا اور اس کے قتل یا زخمی کرنے کے بعد باآسانی طور پر فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے۔

اس بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل کا سُراغ لگانا بھی آسان نہیں ہوتا اور اس کے بعد اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مجرم جنہوں نے ایسی موٹر سائیکل جو کہ انہوں نے واردات میں استعمال کی تھی یا تو کسی نہر وغیرہ میں ڈال دی یا اس کو گڑھا کھود کر دفن کر دیتے ہیں یا اس کے پارٹس کر کے علیحدہ علیحدہ فروخت کر دیتے ہیں، جب کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جرائم میں استعمال کی جانے والی موٹر سائیکل اصل مالکان کی نہیں، بلکہ چوری شدہ ہوتی ہے، جب کہ مختلف گینگ چوری کے پارٹس حاصل کر کے اس سے یہ موٹرسائیکل بناتے ہیں اور پھر واردات کرنے کے بعد اس موٹرسائیکل کو پرزے پرزے کرکے ان پرزوں کوفروخت کر دیا جاتا ہے۔ 

اس کے بعد پولیس تفتیش شروع کرتی ہے، تو اس کو واردات کا پتہ لگانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں یا ایسے مقام پر جہاں لوگوں کی آمد و رفت نہیں ہوتی اور اس جگہ پر کیے جانے والی قتل کی واردات ہو یا لُوٹ مار یا اغوا برائے تاوان کی واردات اور اس میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل کا سراغ نہیں ملتا اور نہ ہی جائے واردات پر کسی کی موجودگی ثابت ہوتی ہے، تو ایسے کیس جس کو پولیس کی زبان میں بلائنڈ کیس کہا جاتا ہے، اکثر فائلوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ایس ایس پی نے اپنے تجربات کی روشنی میں یہ انکشاف بھی کیا کہ سندھ میں سب سے آسان واردات موٹر سائیکل پر کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل کی فروخت سے لے کر اس کو استعمال کر کے ختم کر دینے تک اس کی رجسٹریشن کی سرے سے نوبت ہی نہیں آتی اور اسی وجہ سے لوگ موٹرسائیکل کو جرم میں استعمال کرنا سہل سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے وہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یُوں تو موٹر سائیکلیں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر رواں دواں ہیں، لیکن پولیس ریکارڈ میں اس کی تعداد ہزاروں میں بھی نہیں ہے اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو پولیس کے کاغذات میں موٹرسائیکل پائی جاتی ہے، ان میں بھی بہت سی موٹر سائیکل ایسی ہیں کہ جو کہ ختم ہوگئی اور قصہ پارینہ بن گئی، لیکن پولیس ریکارڈ میں وہ موٹر سائیکل موجود ہوتی ہیں۔ 

 موٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن میں اب آسانیاں کردی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں میں اس کی رجسٹریشن کا رجحان اس لیے بھی نہیں ہے کہ پولیس کو دیگر جرائم کو کنٹرول کرنے کے بعد اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ موٹرسائیکلوں پر ہونے والے جرائم کے معاملات کو دیکھ سکے اور اس جانب توجہ دے سکے، یہی وجہ ہے کہ پولیس کی جانب سے اس سلسلے میں بہتر کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد اس کا فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ 

گوکہ نواب شاہ شہر کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کے بعد کار اور موٹر سائیکل کی چوری آسان نہیں ہے اور دیکھا یہ گیا ہے کہ جیسے ہی موٹر سائیکل یا کار چھین لی جاتی ہے، تو پولیس اس کو فوری طور حدف بنا کر کار موٹر سائیکل چوروں کا پیچھا اور ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیتی ہے اور اکثر یہ ہوا ہے کہ چند گھنٹوں کے بعد ہی مجرموں کے گردن ناپ لی جاتی ہے اور وہ قانون کے شکنجے میں آ جاتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیف سٹی پروجیکٹ کو ضلع شہید بینظیر آباد کے دیگر تعلقوں تک پھیلایا جائے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید