سندھ اور پنجاب کے سرحدی اضلاع اغواء برائے تاوان کی انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکے ہیں، پنجاب کے اضلاع رحیم یار خان راجن پور اور سندھ کے اضلاع گھوٹکی کشمور کی سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں ،خاص طور پر کچے کے جنگلات دریائی جزیرے ہونے کے باعث ان میں سیکڑوں ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور یہ اضلاع ہنی ٹریپ کے ذریعے اغواء برائے تاوان کی انڈسٹری کی صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔
کشمور، شکارپور، سکھر اور گھوٹکی اضلاع کے کچے کے متعدد خطرناک علاقے ہیں، جن میں بعض ایسے ہیں، جہاں آج بھی پولیس کی رسائی نہ صرف مشکل، بلکہ ناممکن بھی دکھائی دیتی ہے۔ حال ہی میں سکھر رینج میں ڈویژن اور ڈسٹرکٹ سطح پر دو اہم تقرریاں کی گئی ہیں۔ ڈی آئی جی سکھر طارق عباس قریشی کو تبدیل کرکے ان کی جگہ جاوید سونھارو جسکانی کو ڈی آئی جی سکھر رینج تعینات کیا گیا ہے، جب کہ گھوٹکی میں اظہر مغل کو تبدیل کرکے تنویر حسین تنیو کو ایس ایس پی گھوٹکی تعینات کیا گیا ہے۔
ان دو اہم ترین تقرریوں کے بعد سکھر رینج کے تمام اضلاع خاص طور پر ضلع گھوٹکی میں پولیس کی کمزور گرفت کے باعث ہنی ٹریپ کے ذریعے اغواء برائے تاوان کی انڈسٹری کی شکل اختیار کر جانے والے ضلع گھوٹکی میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے کے ساتھ پولیس کی کمزور گرفت بھی مضبوط اور مستحکم ہوگی، کیوں کہ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران شکارپور اور کشمور اضلاع میں پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف متعدد کام یاب اور تاریخی آپریشن کیے۔
ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ کی سربراہی میں کشمور اور شکارپور میں کیے گئے آپریشن میں اس وقت کے آپریشن کمانڈر ایس ایس پی امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں بڑی کام یابیاں اپنے دامن میں سمیٹیں اور کچے کے علاقے میں نو گو ایریا ختم کرائے۔ پولیس کی رسائی کو ممکن بنانے کے ساتھ مستقل پولیس چوکیاں قائم کیں، ڈاکوؤں کے قبضے سے کڑوروں روپے مالیت کی کئی ہزار ایکٹر اراضی سے قبضہ ختم کرایا گیا۔
ایک سے ڈیڑھ سال میں ہونے والے آپریشن میں درجنوں ڈاکو مارے گئے، جن میں بیش تر انعام یافتہ بدنام اور خطرناک ڈاکو شامل ہیں، لیکن اس کے برعکس گھوٹکی میں پولیس نے کچے میں کوئی قابل ذکر آپریشن نہیں کیا، بلکہ ڈاکوؤں نے پولیس کو بھاری نقصان پہنچایا، متعدد پولیس جوان شہید ہوئے، لیکن گھوٹکی پولیس اس حوالے سے غیر فعال دکھائی دی، جب کہ سکھر میں ایس ایس پی عرفان علی سموں نے کچے میں متعدد کام یاب آپریشن کیے اور کئی ڈاکو مارے اور اب ایس ایس پی سنگھار ملک نے آپریشن کی کمانڈ سنبھالی ہے اور کچے میں آپریشن میں مصروف عمل ہیں۔
گھوٹکی میں پولیس کی کمزور گرفت اور ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں خاص طور پر ہنی ٹریپ کے ذریعے اغواء برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اینٹی ڈکیٹ آپریشن کے ماہر ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کو گھوٹکی میں تعینات کیا اور ڈی آئی جی جاوید سونھارو جسکانی کو سکھر میں تعینات کیا گیا، سکھر شکارپور گھوٹکی کشمور اضلاع جو آپس میں ملے ہوئے ہیں، ان میں مشترکہ آپریشن کے حوالے سے ممکنہ طور پر دونوں رینج کے ڈی آئی جیز کوئی حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔
ڈی آئی جی لاڑکانہ رینج مظہر نواز شیخ پہلے ہی ڈاکوؤں کے خلاف ایک موثر آپریشن میں مصروف عمل ہیں اور ڈی آئی جی سکھر رینج جاوید سونھارو جسکانی جو ماضی میں سندھ کے متعدد اضلاع میں ایس ایس پی کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، انہوں نے بھی ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے، پہلے مرحلے میں ڈی آئی جی جاوید سونھارو جسکانی نے ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں’’جُرم‘‘ سے نفرت ہے، ’’انسان ‘‘ سے نہیں !!
سکھر رینج کے اضلاع سکھر گھوٹکی اور خیرپور کے ڈاکو جرائم پیشہ عناصر روپوش اور اشتہاری خود کو پولیس کے حوالے کردیں ، جس طرح قتل، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، پولیس مقابلوں اور دیگر سنگیں مقدمات میں مطلوب ڈاکو نورل عرف نورو شاھانی نے جُرم کی دنیا کو چھوڑ کر خود کو قانون کے حوالے کردیا ہے، اسی طرح دوسرے ڈاکو اور جرائم پیشہ لوگ بھی سرینڈر کر دیں، یہ ایک بہتر عمل ہے۔ پولیس کے سامنے سرینڈر کرنے والے کسی ڈاکو یا اشتہاری کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی جائے گی۔
پولیس افسران کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ گرفتاری دینے والے کرمنلز کے ساتھ تمام ایس ایچ اوز نرمی کے ساتھ پیش آئیں، ڈاکو اور جرائم پیشہ عناصر بے نامی اور روپوشی کی زندگی کو چھوڑ کر خود کو قانون کے حوالے کریں جو بھی ڈاکو یا جرائم پیشہ عناصر پولیس کے سامنے رضاکارانہ سرینڈر کریں گے، ان کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی اور کوئی زیادتی نہیں ہوگی، جو انسان جُرم سے توبہ کرے گا، پولیس اس کی ہرممکن مدد کرے گی، بہ صورت دیگر ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن کو تیز کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے حوالے سے ڈی آئی جی لاڑکانہ رینج مظہر نواز شیخ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ہنی ٹریپ کے ذریعے اغواء برائے تاوان کے واقعات ایک دہائی قبل شروع ہوئے اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، جس کے باعث کشمور راجن پور، رحیم یار خان، صادق آباد سمیت دیگر علاقوں میں ہنی ٹریپ کا جُرم ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرگیا تھا، ٹیلی فون پرنِسوانی آواز کے ذریعے لوگوں کو اغوا کرنے کا طریقہ ایک دہائی قبل شروع ہوا تھا، 10 سال قبل 2012 میں اس قسم کے واقعات سامنے آنا شروع ہوئے، مگر ابتدائی طور پر اس حوالے سے ایف آئی آر درج نہیں کرائی جاتی تھی، کیوں کہ اغوا ہونے والے لوگ خود اپنی رضا مندی اور خوشی سے دعوت پر ملنے کچے کے علاقوں میں جاتے تھے، جہاں پہنچ کر وہ ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنس جاتے تھے اور پھر اپنی ساکھ بچانے کے لیے تاوان کی رقم ادا کرکے واپس آکر ایف آئی آر درج کرانے سے گریز کرتے تھے، اغوا ہونے والے زیادہ تر لوگ جب کچے کے علاقوں کا رُخ کرتے تھے، تو ان کے گھر والوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ کہاں گئے ہیں، نسوانی آواز کے ذریعے لوگوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ ضلع گھوٹکی سے شروع ہوا تھا اور اب بھی گھوٹکی میں ہی اس قسم کے کیسز زیادہ سامنے آرہے ہیں، لیکن اُمید ہے کہ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو ان واقعات پر بڑی حد تک قابو پالیں گے۔
کشمور اور شکارپور میں ہنی ٹریپ کے ذریعے اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑی حد تک ختم ہوگئی ہیں، کیوں کہ ایک سال قبل جو حالات واقعات تھے، اس صورت حال میں ہم نے جُرم کے پیٹرن کو سمجھا اور ہماری ٹیم نے ہنی ٹریپ یعنی نسوانی آواز کے جھانسے میں لوگوں کو اغوا کرنے کے واقعات کی چھان بین شروع کی، تو ہم نے ایسا کرنے والے ملزمان کو براہ راست گرفتار کرنے یا انہیں پکڑنے کے بہ جائے جامع و موثر حکمت عملی ترتیب دی، ہم نے ان واقعات کے پس منظر میں دیکھا تو ہمیں یہ نظر آیا کہ اس قسم کے واقعات سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں رونما ہوئے، لوگ شرم کی وجہ سے مقدمات درج نہیں کراتے تھے، خاموشی کے ساتھ یہ جُرم پنپ رہا تھا، پولیس نے بھی اس وجہ سے زیادہ توجہ نہیں دی کہ وہ لوگ خود اپنی مرضی سے کسی کو اطلاع دیے بغیر کچے کے علاقے میں جاتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں، اگر پولیس کی جانب سے بھی اس وقت توجہ دی جاتی اور مقدمات وغیرہ درج کرکے تحقیقات کی جاتیں، تو شاید اس جُرم کو پھیلنے سے روکا جاسکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہوسکا، پولیس کو بھی شاید اندازہ نہیں تھا کہ آہستہ آہستہ یہ جُرم اس قدر خطرناک شکل اختیار کرلے گا۔ اس لیے نہ ہی کوئی مقدمہ درج کیا جاتا تھا اور نہ ہی تحقیقات ہوتی تھی اور یُوں ان واقعات میں اضافہ ہوتا گیا۔
ہماری ٹیم کو جب معلوم ہوا کہ کئی سال سے یہ جرم چلا آرہا ہے اور طریقہ واردات اس قدر پیچیدہ ہے کہ نسوانی آواز کے ذریعے لوگوں کو بہلا پھسلا کر دوستی کرکے ملاقات یا دعوت کے بہانے کچے کے علاقے میں بلایا جاتا ہے۔ ایک مخصوص مقام تک وہ شخص خود پہنچتا ہے، تو پھر اسے وہاں سے موٹر سائیکل، رکشا یا دیگر گاڑی یا پھر پیدل بڑی آسانی سے اپنے ساتھ لے جاکر کچے کے علاقے میں یرغمال بنالیا جاتا ہے، ہم نے باریک بینی سے تحقیقات کیں، ان وارداتوں کے پیٹرن کو مکمل طور پر سمجھا، پہلی کال کے سگنل کس ٹاور سے آتے ہیں، ٹرانسپورٹ کہاں سے آتی اور کہاں جاتی ہے؟ اغوا ہونے والے شخص کو کہاں رکھا جاتا ہے؟ پیسے کس طرح وصول کیے جاتے ہیں، سپلائی لائن کیا ہے؟ کال کون کرتا ہے؟ تاوان کی رقم کون وصول کرتا ہے؟ ہنی ٹریپ کے واقعات میں پھنسنے والے لوگوں کا زیادہ تر تعلق دیگر صوبوں کے مختلف شہروں سے تھا۔ ان سب چیزوں کو دیکھ اور سمجھ کر ہم نے ملزمان پر براہ راست ہاتھ نہیں ڈالا اور نہ ہی ان سے لڑنے کے لیے کچے کے علاقے میں پہنچے، بلکہ جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، اسی طرح ہم نے ان کے پورے نیٹ ورک کو سمجھ کر اسے توڑا۔