• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سوشل میڈیا ایپس اور فوڈ رائیڈرز کے ذریعے منشیات کی فروخت کا انکشاف

کراچی میں منشیات کی لعنت نے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اپنا ہدف بنا لیا ہے، منشیات استعمال کرنے کے باعث ہزاروں زندگیاں برباد ہوگئیں، جب کہ سینکڑوں گھر اجڑ گئے ، نوجوانوں کی بڑی تعداد منشیات کی عادی بن چکی ہے، جس کے باعث نئی نسل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ منشیات کی لت پہلے صرف غریب اور کچی آبادیوں میں رہنے والے نوجوانوں کو متاثر کر رہی تھی۔ تاہم اب پوش علاقوں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان میں اس لت میں مبتلاء ہو چکے ہیں۔

منشیات فروشوں کے کارندے شہر بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور آئے روز وہ کئی نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنا رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ منشیات فروشوں نے بھی منشیات کی فروخت اور ترسیل کے نت نئے طریقے اپنا لیے ہیں۔ منشیات فروش، نوجوانوں کو آئن لائن منشیات کی فروخت کرتے ہیں، ملزمان فیس بُک اور دیگر سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے آرڈر لے کر مہلک ترین نشہ آئس پاؤڈر، کرسٹل، کوکین، ہیروئن اور چرس کی سپلائی ان کے دیے گئے مقام پر کرتے ہیں۔ 

چند برس پہلے تک یہ دھندہ ڈیفنس ، کلفٹن ،پی ای سی ایچ ایس،بہادرآباد اور دیگر پوش علاقوں میں جاری تھا۔ تاہم اب شہر بھر میں منشیات فروش نیٹ ورکس کے کارندوں نے یہ گھناؤنا دھندہ شروع کر دیا ہے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو بھی منشیات کی لت لگ چکی ہے۔ منشیات استعمال کرنے والوں میں زیادہ تعداد طلباء کی ہے، جو کراچی کے مختلف کالجز اور یونی ورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں ، جب کہ منشیات کا زیادہ استعمال خواتین اور طالبات کرتی ہیں، طالبات میں منشیات کے استعمال میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

کراچی میں پولیس افسران کے تمام تر دعوؤں کے باوجود پولیس کی سرپرستی میں منشیات فروخت ہو رہی ہے،جب کہ بعض علاقوں میں انہیں سیاسی کارندوں کی حمایت بھی حاصل ہے، پولیس منشیات فروشوں کے بہ جائے نشے کے عادی افراد کو پکڑنے میں مصروف ہے، خواتین بھی منشیات فروشی کے منظم نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔پاکستان میں منشیات کی زیادہ مقدار افغانستان سے اور کراچی میں منشیات کے پی اور بلوچستان کے علاقوں سے آتی ہے۔ 

ملزمان پہلے سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے دوستیاں کرتے ہیں ،پوش علاقوں میں رہنے والے لڑکے اور لڑکیاں ایسے علاقوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں، جہاں منشیات فروخت ہوتی ہے ، پوش علاقوں کے لڑکے اور لڑکیاں بلیک میلنگ کے ڈر سے ان علاقوں میں نہیں جاتے اور آن لائن منشیات خرید لیتے ہیں، جس میں رسک کم ہوتا ہے۔ 

منشیات فروش نیٹ ورکس کے لیے کام کرنے والے افراد سوشل میڈیا آئی ڈیز بنا کر پہلے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے دوستی کرتے ہیں، ان ایپس کے ذریعے پوش علاقوں اور فارم ہائوسز میں ہونے والی پارٹیوں میں انھیں مدعو کرتے ہیں، دوستی ہو جانے کے بعد انھیں پہلے مفت میں آئس اور کرسٹل دیتے ہیں اور جب وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں، تو اسے پھر مہنگے داموں فروخت کر کے ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور پیسے وصول کرنے کےساتھ ان کی منشیات استعمال کرتے ہوئے ویڈیوز بنا کر بلیک میل بھی کرتے ہیں،اس وقت شہر میں اے لیول، او لیول، بی بی اے ،ایم بے اے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا طلباء بھی منشیات کے استعمال کے عادی پائے گئے ہیں۔ 

شہر بھر میں کُھلے ہوئے شیشہ بارز اور کیفے بھی منشیات فروشوں کے کارندوں کی بیٹھک بن چکے ہیں۔ رات گئے تک یہ شیشہ کیفیز کُھلے رہتے ہیں، جہاں شیشہ کے علاوہ نوجوانوں کو منشیات کی سپلائی بھی کی جاتی ہے، کئی شیشہ کیفیز پولیس کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ تاہم پولیس ان شیشہ کیفیز سے اپنا حصہ وصول کر کے خاموش رہتی ہے۔

کراچی میں منشیات باہر سے آتی ہے، پہلے کے پی کے اس کا بڑا مرکز تھا، جب کہ اس وقت شہر میں منشیات کی بڑی مقدار بلوچستان کے راستے سے آ رہی ہے۔ منشیات ، مسافر بسوں،ذاتی گاڑیوں اور ٹرکوں کے خفیہ خانوں میں چھپا کر کراچی منتقل کی جاتی ہے۔ ان خفیہ خانوں کو باقاعدہ ویلڈنگ کر کے بند کیا جاتا ہے اور ایک عام آدمی اسے نہیں دیکھ یا پہچان سکتا۔

کراچی پہنچ کر ان خفیہ خانوں سے منشیات نکانے کے لیے ویلڈنگ کو توڑا جاتا ہے اور پھر منشیات نکال کر شہر کے مختلف علاقوں میں ڈیلرز کے ذریعے منتقل کی جاتی ہے۔ نشہ آور اشیاء بڑے ڈیلرز سے ہوتی ہوئی چھوٹے ڈیلرز تک پہنچتی ہیں اور پھر گلی محلوں میں کارندوں کے ذریعے نوجوان طبقے،پوش علاقوں میں ہونے والی ڈانس پارٹیوں، کالج اور جامعات کے طلباء کو فروخت کی جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ منشیات فروشوں نے بھی اپنے کام کے طریقے بدل لیے ہیں اور اب آن لائن موٹر سائیکل رائیڈرز اور آن لائن فوڈ سپلائرز کمپنیوں کے ذریعے بھی منشیات کی ترسیل کی جاتی ہے، پرائیوٹ ایمبولینس اور سرکاری گاڑیوں کو بھی منشیات کی سپلائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

منشیات فروش نیٹ ورکس نے اب پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اپنی چین کا حصہ بنا لیا ہے اور کمیشن پر انھیں کام دیا جاتا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو کچی آبادیوں اور منشیات فروشی کے اڈوں سے منشیات خرید کر دیتے ہیں، جو شہر کے مختلف علاقوں میں ان پڑھے لکھے اور زیادہ تر بیروزگار نوجوانوں کے ذریعے کلائنٹس کو فروخت کی جاتی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں واقع اسکولز اور کالجز کے باہر بھی منشیات فروشوں کے کارندے موجود ہوتے ہیں اور وہ طلباء سے پیسے لےکر انھیں اسی وقت منشیات فراہم کرتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کے باہر موجود پتھاروں،چائے کے ہوٹلوں اور پان کے کیبن سے بھی منشیات فروخت ہوتی ہے اور یہ لوگ منشیات فروشوں سے اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔ شہر میں خواتین بھی منشیات فروشی کے منظم نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ پولیس نے گزشتہ ایک سال کے دوران منشیات فروشی میں ملوث مختلف خواتین کو بھی گرفتار کیا ہے۔ 

پولیس کا کہنا ہے کہ خواتین پر چوں کہ علاقہ مکینوں اور پولیس کی نظر کم ہوتی ہے اور پولیس کو بھی بعض علاقوں میں خواتین کی ریکی کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، اس لیے منشیات فروش، خواتین کو بھی اس دھندے میں شامل کرتے ہیں، تاکہ ان کا کاروبار بڑھ سکے، جب کہ ریلوے لائنوں اور کچرا کنڈیوں کیساتھ منشیات فروشوں کے کارندے منشیات فروخت کرتے ہیں۔

شہر کے مختلف علاقوں میں منشیات کے مختلف ریٹس ہیں۔ پوش علاقوں میں زیادہ تر آئس پاؤڈر،کرسٹل ،ہیروئن اور کوکین کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔ دیگر علاقوں میں گردہ اورچرس زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔منشیات کی قیمت ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف ہے۔منشیات جب افغانستان سے پشاور پہنچتی ہے، تو وہاں اس میں ملاوٹ کر کے اس کی مقدار بڑھا دی جاتی ہے، اگر وہ وہاں سے براہ راست کراچی آ جائے تو اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، لیکن اگر وہ دیگر شہروں سے ہوتی ہوئی آتی ہے، تو اس میں ملاوٹ کر کے اس کی مقدار بڑھا کر پھر اسے آگے بھیجا جاتا ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں میں پہنچتے پہنچتے اس میں ہونے والی ملاوٹ کی وجہ سے اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے، لیکن خالص نہ ہونے کے باعث اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔

کراچی میں پولیس افسران کے تمام تر دعوؤں کے باوجود پولیس کی سرپرستی میں منشیات فروخت ہو رہی ہے اور متعدد پولیس اہل کاروں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے،جب کہ بعض علاقوں میں انہیں سیاسی کارندوں کی حمایت بھی حاصل ہے، غیر ملکی افراد بھی منشیات کی فروخت میں ملوث پائے گئے ہیں،پولیس منشیات فروشوں کے بہ جائے نشے کے عادی افراد کو پکڑنے میں مصروف نظر آتی ہے، کراچی کے مختلف علاقوں جن میں ناظم آباد، گلبہار، رضویہ، جمشید کواٹر ،نیوکراچی، نارتھ ناظم آباد، منگھوپیر، اورنگی ٹائون، کیماڑی، شاہ لطیف ٹاؤن ،قائد آباد، شیرپائو کالونی، پُرانی سبزی منڈی، پاک کالونی، لیاری،ڈالمیا، ملیر ،نیوکراچی، ناتھا خان ، شاہ فیصل ، کورنگی، ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ، بھینس کالونی، گلستان جوہر، گلشن اقبال، سچل، سہراب گوٹھ، کالا پل، سلطان آباد،ہجرت کالونی، گلشن معمار،بلدیہ ٹائون، چنیسر گوٹھ، محمودآباد، مواچھ گوٹھ،بلوچ کالونی، سرجانی،مچھر کالونی شامل ہیں، میں اب بھی منشیات فروخت ہو رہی ہے۔

پولیس کی جانب سے منشیات فروشوں کی گرفتاری کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ تاہم گرفتار ملزمان میں زیادہ تر تعداد منشیات کے عادی افراد اور چھوٹے سپلائرز کی ہوتی ہے، جب کہ منشیات فروخت کرنے والے بڑے ’’مگر مچھ‘‘ پولیس کے ہاتھ ہی نہیں آتے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق بعض علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے کارندوں کی بھی منشیات فروشوں کو سپورٹ حاصل ہے اور پولیس کے بااثر اہل کار بھی اس جُرم کی سرپرستی کرنے میں مصروف ہیں ، ماضی میں منشیات فروش کلعدم تنظیموں کو بھی فنڈنگ کرتے رہے ہیں۔ایڈیشنل آئی جی کراچی کی جانب سے سے کئی بار منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کے دعوے کیے گئےلیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ منشیات اب بھی شہر کے مختلف علاقوں میں فروخت ہو رہی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ منشیات کی لعنت سے جہاں مستقبل کے معمار برباد ہو رہے ہیں، وہیں جرائم میں اضافے کی بنیادی وجہ بھی یہی لعنت ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے پولیس نے کراچی میں جن اسٹریٹ کرمنلز کو گرفتار کیا ہے، ان کی بڑی تعداد منشیات کی عادی تھی اور وہ اپنے نشے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وارداتیں کرتے تھے، جب کہ کراچی میں ڈکیتی کے دوران قتل کے واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے بعد جب ان سے تفتیش کی گئی تو ان میں سے متعدد ملزمان منشیات کے عادی نکلے۔

پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک منشیات تیار کرنے والے مقامات پر کارروائی نہیں کی جائے گی اور اس کی ترسیل کے روٹ پر سخت اقدامات نہیں کیے جائیں گے، اس وقت تک شہر میں نشہ آور اشیاء پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ سندھ کے تمام اضلاع میں منشیات کی فروخت کے مکروہ دھندے میں ملوث افراد کے خلاف ایک بڑے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہےاور اس حوالے سے ہر ضلع میں موجود منشیات فروشی میں ملوث افراد کی فہرستیں مرتب کی جا رہی ہیں۔

اس حوالے سے اسپیشل برانچ اور مقامی پولیس کی جانب سے فہرستیں بنائی جا رہی ہیں۔ سندھ میں منشیات کی فروخت کے باعث جہاں نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے ، وہیں منشیات کے عادی افراد اسٹریٹ کرائم ،گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ ہر ضلع کے ایس ایس پی سے منشیات فروشوں کی گرفتاری کے بارے میں جوابدہی ہو گی اور وہی اس کا ذمےدار ہو گا،ایس ایس پی سے اس کے علاقے میں منشیات فروشوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی تفصیلات بھی لی جائیں گی۔

مکمل فہرستیں مرتب ہونے کے بعد صوبے بھر میں منشیات فروشوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا جائے گا۔دوسری جانب کراچی پولیس کے مطابق رواں برس کے 8 ماہ کے دوران 5 ہزار 730 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ملزمان کے قبضے سے 75 لاکھ 90 ہزار 211 گرام چرس،17 ہزار 98 گرام کرسٹل،30 ہزار 15 گرام آئس،60 ہزار 410 گرام ہیروئن اور 12 لاکھ 68 ہزار 602 گرام افیون برآمد کی گئی ہے۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کے ترسیل کے نظام پر نظر رکھی جائے اور شہر کے انٹری پوائنٹس پر جدید آلات کی مدد سے گاڑیوں کو چیک کیا جائے، تاکہ شہر میں منشیات فروش، منشیات لےکر داخل ہی نہ ہو سکیں۔ پولیس کے علاوہ اینٹی نارکوٹکس فورس ،رینجرز، کوسٹ گارڈز،کسٹم سمیت دیگر اداروں کو مل کر منشیات کی روک تھام کے لیے منصوبہ بندی کرنا پڑی گی، بہ صورت دیگر مستقبل کے معمار اس لت میں مبتلاء ہوتے رہیں گے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید