کراچی پاکستان کاسب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی، تجارتی اور معاشی حب بھی ہے جس کے باعث کراچی کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، قیام پاکستان کے وقت اس کی آبادی کم و بیش تین لاکھ تھی جو بڑھتے بڑھتے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈھائی کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، زندگی کی دوسری ضروریات کے ساتھ ساتھ قبرستان وہ جگہ ہے جسے آخری آرام گاہ یا آخری منزل قرار دیا جاتا ہے، ہر وہ شخص جو دنیا میں آیا ہے اسے لوٹ کر اپنے رب کے پاس جانا ہے، موت اٹل حقیقت ہے، ہر زی روح کو اس کا مزا چکنا ہے، ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے اسے اپنی رہائش گاہ کے قریب ہی تدفین کی سہولت میسر ہو تاکہ اس کے لواحقین قبر کی دیکھ بھال کرسکیں اور فاتحہ خوانی کے لئے قبرستان آسکیں۔
قیام پاکستان کے بعد گزشتہ پچھتر سالوں میں قبرستانوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے ان کی حالت کبھی بھی تسلیم بخش نہیں رہی، پھر مختلف مافیاز کی عملداری کی وجہ سے یہ مجرمانہ سرگرمیوں کا مرکز بن گئے ۔ منشیات کے عادی افراد سے لے کر سماج دشمن عناصر تک سب ہی نے اپنے پنجے گاڑھ لئے، مختلف قبرستانوں پر گورکن مافیاز نے بھی قبضے کرلئے، قبروں میں تدفین کے لئے منہ مانگی قیمت وصول کرنے لگے، متعدد بار ان مافیاز کے خلاف کارروائی کی گئی لیکن یہ دوبارہ منظم ہو کر پھر ان قبرستانوں پر اپنا قبضہ کرلیتے ہیں۔
کراچی میں زمانہ قدیم سے ہی مسلمان ، ہندو، عیسائی اور پارسیوں کے قبرستان موجود تھے، مختصر تعداد میں یہودی بھی یہاں آباد تھے ۔قیام پاکستان سے پہلے چوکنڈی قبرستان، میوہ شاہ قبرستان، گورا قبرستان، کراچی وار سیمیٹری اور دیگر قبرستان شامل تھے، جوں جوں آبادی بڑھتی گئی قبرستانوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا لیکن آبادی کے لحاظ سے آج بھی ان قبرستانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث قبر کے لئے زمین کا ملنا دشوار ہوتاجارہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں مجموعی طور پر دو سو سے زائد قبرستان واقع ہیں ان میں عام قبرستانوں کی تعداد 192 ہے، مسیحی برادری کی قبرستانوں کی تعداد 12، غیر مسلم قبرستانوں کی تعداد 19، ہندو برادری کے شمشان گھاٹ کی تعداد 5 ہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس رجسٹرڈ مسلم قبرستان کی تعداد 46 ہے جس کا انتظام و انصرام کے ایم سی کے ذمے ہے، اسی طرح مختلف انجمنوں اور ایسوسی ایشنوں کے زیر انتظام مسلم قبرستانوں کی تعداد 99ہے جبکہ غیر مسلم قبرستانوں کی تعداد 13ہے، یہ انجمنیں جن کے نام یہ قبرستان رجسٹر ہیں تجہیز و تدفین کے انتظامات ازخود کرتی ہیں اور ان میں مخصوص برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تدفین کی اجازت دی جاتی ہے۔
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں بھی پانچ قبرستان ہیں ،جس میں فیزایک، فیزدو ایکسٹینشن، فیز چھ، فیز آٹھ اور فیزچار میں گذری قبرستان شامل ہیں، گذری قبرستان ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں شجر کاری بھی کی گئی ہے اور صفائی ستھرائی کا انتظام بھی بہتر ہے، پاکستان کی عظیم گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی تدفین بھی یہیں عمل میں آئی تھی، فیز آٹھ میں کچھ سال قبل نیا قبرستان بنایا گیا ہے جہاں صرف ڈیفنس کے رہائش پذیر لوگوں کو تدفین کی اجازت ہے۔ اس قبرستان میں کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان اور حال ہی میں انتقال کرنے والی پاکستان کی مقبول ترین گلوکارہ نیرہ نور کی تدفین بھی عمل میں لائی گئی ہے۔
اسی طرح میراں پیر قبرستان، مائی گنجی قبرستان، ریکسر لائن قبرستان، مورڑہ قبرستان، حسینی باغ قبرستان، علی باغ قبرستان، انجمن مسلمانان پنجاب قبرستان، عظیم پورہ قبرستان ، شاہ فیصل کالونی قبرستان، محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی، باغ احمد ، جنت البقیع حب ریور روڈ، پیر بخاری، پہلوان گوٹھ، شاہ فیصل کالونی گیٹ، شانتی نگر ڈالمیا روڈ، علی باغ نیا آباد لیاری، ریڑھ گوٹھ لانڈھی ، کورنگی نمبر ایک قبرستان ، محمود آباد نمبر پانچ قبرستان، اعظم ٹائون قبرستان بھی نمایاں اور پرانے قبرستانوں میں شمار ہوتے ہیں، ان قبرستانوں کے علاوہ مختلف مزارات کے احاطے میں بھی چھوٹے قبرستان واقع ہیں جن میں، عبداللہ شاہ غازیؒ کا مزار ، منگھو پیر کا مزار شامل ہیں۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں ایک چھوٹا قبرستان بھی ہے، جس میں پاکستان کے پہلے سیکریٹری خارجہ اور تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما شائستہ اکرام اللہ کے شوہر اکرام اللہ، محترمہ شیریں بائی، ممتاز ماہر تعلیم قاضی محمد فرید، محترمہ شیریں جناح کے فرزند اکبر جعفر، سابق وفاقی سیکریٹری مسرت حسین زبیری،ممتاز عالم دین ، جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی‘ معروف نعت خواں الحاج خورشید احمد‘ یوسف میمن، معروف ٹی وی اینکر اور ممبر قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی والدہ بیگم محمودہ سلطانہ ،والد شیخ لیاقت حسین ، عامر لیاقت حسین کی قبریں ہیں ، 6 اکتوبر 2021 ء کو ملک کے معروف اداکار عمر شریف کی تدفین بھی اسی قبرستان میں عمل میں لائی گئی جو ان کی وصیت کے مطابق تھی۔ آیئے کراچی کے کچھ قدیم اور تاریخی قبرستانوں کے بارے میں جانتے ہیں۔
چوکنڈی قبرستان
نیشنل ہائی وے پر واقع پانچ سو سال پرانا قدیم چوکنڈی قبرستان ہے، قبروں کی بناوٹ کے لحاظ سے اسے چوکنڈی قبرستان کا نام دیا گیا ہے، اس قبرستان کو حکومت نے تاریخی ورثہ قرار دیا ہے، ڈھائی کلو میٹر سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے اس قبرستان میں موجود قبروں کے بارے میں مشہور روایت ہے کہ یہاں 710 سن عیسوی میں سندھ پر حملہ آور ہونے والے عرب سپہ سلار محمد بن قاسم کے فوجی دفن ہیں تاہم مورخین کے مطابق تین سو سے پانچ سو سال قدیم یہ قبریں سولہویں صدی عیسوی کے لگ بھگ سندھ میں بسنے والے بلوچ قبائل سرداروں کے مدفن ہیں، چوکنڈی میں قبروں کا طرز تعمیر ٹھٹھہ کے علاقے مکلّی کے تاریخی قبرستان اور بالائی سندھ کے شہر روہڑی میں موجود ستین جوڑو میں موجود قبروں سے ملتا جلتا ہے۔
چوکنڈی قبرستان سے کئی پراسرار دستانیں اور واقعات بھی منسوب کئے جاتے ہیں، اس قبرستان میں جوکھیو اور بلوچ قبائل کی قبریں موجود ہیں، چوکنڈی کے معنی چار کونوں کے ہیں، قبرستان میں تمام قبریں جھنگ شاہی سے لائے گئے پتھروں سے تعمیر کی گئی ہیں جو تیز پیلے اور زرد رنگ سے ملتا جلتا ہے، پتھروں کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چھ سو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ قبریں آج بھی قائم ودائم ہیں۔
قبروں پر باقاعدہ نقاشی بھی کی گئی ہے، پھول ، بوٹے، مختلف ڈیزائن، مصری بادشاہوں کے تاج سے ملتے جلتے سرہانے اور جالیاں تعمیر کی گئی ہیں، کچھ قبروں پر بلند و بالا گنبد بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ان قبروں میں عام لوگ دفن نہیں ہیں بلکہ یہ کسئ عہدے پر فائض یا اعلیٰ مقام رکھنے والے شخص کی قبر ہے، بعض قبروں پر تلوار بازی ، گھوڑ سواری، تلوار اور خنجر وغیرہ کے نقوش بھی پائے جاتے ہیں جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کندا کئے گئے ہیں بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئی تھیں جبکہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے کچھ خواتین کی قبروں پر ڈولی اور جنازے کی علامت گہوارے سے مشابہ نقوش بھی موجود ہیں ،جو شادی شدہ رئیس خواتین کی بتائی جاتی ہیں۔
میوہ شاہ قبرستان
تاریخی قبرستان میوہ شاہ کا شمار دنیا کے تاریخی اور بڑے قبرستانوں میں ہوتا ہے، اس قبرستان میں موجود کئی قبروں کےکتبوں پر سترہویں صدی کی تاریخیں آویزاں ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ قبرستان سترہویں صدی یا اس سے قبل آباد ہوا ہوگا، لیاری ندی کے کنارے قائم میوہ شاہ قبرستان کا نام صوفی بزرگ حضرت میوہ شاہ بابا کے نام سے منسوب ہے۔ قبرستان ایک ہزار ایکڑ اراضی سے زائد علاقے پر محیط ہے جس کا ایک حصہ گارڈن اور دوسرا حصہ شیر شاہ سے جا ملتا ہے، آبادی کے پھیلائو اور نئی بستیوں کی تعمیر سے قبل یہ قبرستان کسی زمانے میں دو ہزار سے زائد ایکڑ رقبے پر قائم تھا۔
میوہ شاہ قبرستان پاکستان کا وہ منفرد قبرستان ہے جو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی قبروں کی وجہ سے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی علامت ہے۔ اس قبرستان میں یہودیوں اور عیسائیوں کی قبریں بھی ہیں۔ قبرستان میں کاٹھیاوار اور سورمار اور اٹھارہویں صدی کے نامور مجاہد قادر بخش عرف قادر مکرانی کی قبر بھی ہے، قادر بخش نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کیا اور مخالفین کو ناکو چنے چبوائے تھے۔ انگریز نے ان کو گرفتار کرکے کراچی سینٹرل جیل میں پھانسی دی تھی۔
1933ء میں عالیہ سامراج کراچی میونسپلٹی کمیٹی کے عہدیدار نتھورام کے قتل میں پھانسی کی سزا پانے والے عاشق رسولؐ غازی عبدالقیوم کی قبر بھی اسی قبرستان میں واقع ہے۔ کراچی میں یہودیوں کی قبریں بھی اس قبرستان کا ایک حصہ ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوتی جا رہی ہیں، قبرستان کے اس حصے کو بنی اسرائیل قبرستان بھی کہا جاتا ہے، قبروں کے کتبوں پر عبرانی زبان تحریر ہے، قبرستان کی دیکھ بھال کرنے والے گورکنوں کا کہنا ہے کہ وہ سالو ں سے ان قبروں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور یہ فریضہ نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔
اس قبرستان میں اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی کی قبریں موجود ہیں، 80ء کی دہائی میں آخری بار تدفین ہوئی تھی ، قبریں فن تعمیر کا شاہکار ہیں، قبروں کی تراش خراش اور تعمیر منفرد ہے، سنگ مرمر سے تعمیر بعض قبروں پر صائبان اور کمرے بھی بنائے گئے ہیں جن کی چھتوں پر لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے، اس قبرستان میں کراچی میں یہودی کی پہلی اور آخری عبادت گاہ شیلوم سینگاگ بنوانے والے سولومن ڈیوڈ اور اس کی بیوی شولا بائی کی قبریں بھی موجود ہیں، سولومن ڈیوڈ کراچی میں بلدیہ میں ملازم تھے جن کا انتقال 1902ء میں ہوا۔
گورا قبرستان
تاریخی اہمیت کا حامل مسیحی برادری کا گورا قبرستان شاہراہ فیصل پر واقع ہے ، اس قبرستان میں مقامی شہریوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی بھی سینکڑوں قبریں ہیں لگ بھگ 25 ایکڑ پر پھیلے اس تاریخی قبرستان کی بنیاد 1845ء سے پہلے انگریزوں کے دور میں رکھی گئی جس کی وجہ سے اسے گورا قبرستان کہا جاتا ہے تاہم اس قبرستان میں پہلی تدفین کب ہوئی اس سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن قبرستان میں سب سے پرانی قبر 1843ء کی بھی موجود ہے، 1887ء اور 1891ء کی قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں جن پر اس زمانے کے قیمتی پتھر پر سال اور تاریخیں درج ہیں، گورا قبرستان میں ایک بڑی تعداد میں برطانوی فوجیوں کی قبریں بھی موجود ہیں لیکن تاریخی حوالوں میں اس قبرستان کے قیام کی تاریخ 1845ء درج ہے۔
جنگ عظیم دوم کے دوران جبکہ جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو 1942 ء سے 1945ء کی درمیانی مدت میں پولینڈ کے کم و بیش 30 ہزار شہریوں نے کراچی میں پناہ لی تھی، انہیں کنٹری کلب اور ملیر میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا گیا تھا، پناہ گزینی کے دوران 58 پولش شہری انتقال کرگئے جو اسی قبرستان میں دفن ہیں، 2005ء میں پولینڈ کے قونصل خانے نے اپنے 58 افراد کی آخری یادگار کو باقاعدہ سنگ مرمر سے تعمیر کرایا اور اس پر واقع سے متعلق تفصیلات کندہ کرائیں۔
قبرستان میں برطانوی راج میں کراچی کے کلیکٹر سرہینری اسٹیولی لارینس کی بیوی فلس لوئس لارینس کی قبر بھی یہیں ہے، فلس لوئس کی قبر پر 30 جولائی 1912ء کی تاریخ درج ہے جبکہ قبر کے لئے مغل دور کی طرز تعمیر پر الگ کوٹھڑی بنائی گئی ہے ، فلس لوئس کے تین بچے تھے، ان کی موت ایک روڈ حادثے میں ہوئی تھی۔ پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کی قبر بھی گورا قبرستان کے پیچھے ایک حصے میں ہے۔
منگھو پیر کا قبرستان
یہ کراچی کا انتہائی قدیم قبرستان ہے، جس کی قبروں کی بناوٹ چوکنڈی کے قبرستان سے ملتی جلتی ہے، اس قبرستان میں سولہویں صدی سے لے کر اٹھارہویں صدی تک کی پرانی قبریں ہیں، اسی طرح ایک قبر پر سن 1913 ہجری بھی درج ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قبرستان صدیوں پرانا ہے، منگھوپیر کے مزار کے احاطے میں بعض قبریں انتہائی پرانی ہیں کیونکہ سندھ کے مختلف دور دراز کے علاقوں سے لوگ اپنے پیاروں کو یہاں لاکر دفن کرتے تھے تاکہ انہیں ایک پرسکون جگہ میسر آئے، منگھوپیر میں ایک ایسی قبر بھی ہے جس کے کتبے پر سردار خان درج ہے اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ برفانی قبیلے کا سردار تھا۔ اب ان قبرستانوں میں قبروں کے لئے جگہ بھی نا پید ہے، کراچی میں ان قبرستانوں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک جدید اور منظم قبرستان کا قیام عمل میں لایا گیا ،جسے وادی حسین قبرستان کا نام دیا گیا۔
وادی حسین قبرستان
سپر ہائی وے کراچی حیدرآباد ٹول پلازہ سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر بارہ ایکڑ اراضی پر محیط وادی حسین شہر کا مثالی اور منظم قبرستان واقع ہے اس کے قیام کا سہرا دو بھائیوں شیخ سخاوت علی اور شیخ یاور علی کے سر ہے جبکہ اس قبرستان کا تصور پہلی بار حاجی محمد یوسف نقوی مرحوم نے پیش کیا تھااور اس قبرستان میں پہلی قبر بھی ان کے بڑے بھائی کی بنائی گئی ہے۔
اس کے بارے نومبر 1999ء میں باقاعدہ تدفین کے لئے کھولا گیا، وادی حسین قبرستا ن کا انتظام اس وقت عالم شاہ جی چلا رہے ہیں، لواحقین انٹرنیٹ کے ذریعے بھی اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرسکتے ہیں، قبروں کی ڈیجیٹل شناخت کی وجہ سے یہ پاکستان کا پہلا آن لائن اور منفرد قبرستان ہے یہاں ہر قبر کو باقاعدہ ایک نمبر الاٹ کیا گیا ہے جو تدفین کے وقت ہی مرحوم کے لواحقین کو بتا دیا جاتا ہے اگر کوئی شحض کسی وجہ سے تدفین میں موجود نہیں تھا یا جو شخص گھر بیٹھے اپنے دوست واحباب یا عزیز و اقارب کی قبر دیکھنا چاہے وہ قبرستان کی آفیشل ویب سائٹ پر جاکر قبر نمبر کی مدد سے سرچ کرکے اس کی تصویر دیکھ سکتا ہے، باغ وادی حسین ایک مثالی قبرستان ہے جہاں قبروں کو ایک ترتیب کے ساتھ قطار درقطار بنایا گیا ہے، یہاں آنے والوں کو کسی قبر کو پھلانگنا نہیں پڑتا، قبروں کے درمیان چلنے کے لئے کشادہ راہداریاں ہیں۔
اگر کوئی قطار سو یا اس سے بھی زیادہ قبروں کی بھی ہے تو ان سب کا سائز یکساں اور ان سب کی لمبائی ساڑھے چھ فٹ ہے جبکہ چوڑائی بھی ایک جیسی ہے، ہر بلاک کی ہر قبر کتبہ ایک سائز کا ہے اور ایک ہی کلر کے ٹائل ان پر نصب ہیں، کتبے پر دعائیں اور ان کی کتابت اور ان کے رنگ تک یکساں ہیں، پہلی قبر سے آخری قبر تک سب ایک جیسا منظر نہایت منظم اور ترتیب وار دکھائی دیتا ہے، قبرستان میں تدفین کے ساتھ ساتھ قبروں پر آنے والے افراد کے لئے پانی، پھول اور روشنی کی سہولیات بھی دستیاب ہیں، وادی حسین قبرستان میں باقاعدہ ایک مسجد اور وضو خانہ بھی موجود ہے جہاں مجالس منعقد ہوتی ہیں،اس قبرستان میں کئی نامور شخصیات کی قبریں موجود ہیں۔
علاوہ ازیں فردوس کالونی ناظم آباد کا قبرستان، لالوکھیت کا لیاری ندی قبرستان اور سعود آباد قبرستان بھی قدیم قبرستانوں میں شمار کئے جاتے ہیں، پاپوش نگر کا قبرستان جو منصوبہ بندی سے وجود میں آیا تھا لیکن آہستہ آہستہ راہداریاں ختم کرکے یہاں بھی قبریں بنا دی گئی ہیں، سوک سینٹر کے قریب واقع عیسیٰ نگری قبرستان بھی ایک بہت بڑا قبرستان ہے اسی طرح سخی حسن قبرستان بھی کراچی کے بڑے قبرستانوں میں شمار ہوتا ہے جس میں ایک طویل عرصے تک تدفین کا عمل جاری رہا ، بہزاد لکھنوی کا مزار مبارک اور انور بہزاد ، معروف دانشور اور شاعر رئیس امروہوی ان کے بھائی معروف شاعر جون ایلیاء بھی یہاں آرام فرما ہیں۔