اسلام آباد (انصار عباسی) چند روز قبل عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ وہ ’’کارنرڈ ٹائیگر‘‘ بن جائیں گے لیکن اصل میں وہ شتر بے مہار (بُل اِن دی چائنا شاپ) بن چکے ہیں۔
آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے اپنے حالیہ بیان میں انہوں نے مستقبل کے آرمی چیف کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے وہ بھی اُس وقت جب کسی کو معلوم ہی نہیں کہ اگلا چیف کون ہوگا۔
عمران خان کی بوکھلاہٹ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ نئی معلوم کہ کیسے، قانونی ہوں یا غیر قانونی، آئینی ہوں یا غیر آئینی؛ عمران خان جلد انتخابات چاہتے ہیں۔
بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ وہ خطرناک ہو چکے ہیں اور جو کچھ انہوں نے اور ان کی پارٹی کے رہنمائوں نے کرنا شروع کر دیا ہے اس سے پاکستان اور اس کے اداروں کو نقصان ہو رہا ہے۔
شہباز گل کے فوج مخالف بیان سے لیکر آئی ایم آیف کی ڈیل کو ناکام بنانے کی شوکت ترین کی سازش تک اور اب عمران خان کے آرمی چیف کے تقرر کے متعلق نئے بیان تک، پی ٹی آئی کی طرف سے ایسے اقدامات و بیانات دیے جا رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران کان اور ان کی پارٹی کے لیڈر بوکھلائے ہوئے ہیں اور الیکشن کام مطالبے میں ایسی حدوں کو چھونے لگے ہیں جس میں اخلاق نام کی چیز نہیں، اور انہیں ریاستی اداروں کا خیال ہے اور نہ ملک کا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کو اظہار کی آزادی کا چیمپئن سمجھا جاتا ہے۔ اکثر اوقات ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو رعایت دیتے ہیں جو مبینہ طور پر اس آزادی کی حدود سے باہر جاتے ہیں۔
اس معاملے میں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی عمران خان کے بیان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ زرداری اور نواز شریف نومبر میں اپنی پسند کا جرنیل بطور آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے اس بیان پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’’گیم آف تھرونز‘‘ کیلئے ہر چیز دائو پر لگا دی گئی ہے۔
انہوں نے مسلح افواج کی قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے ہمارے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان عدالتوں سے ریلیف کی توقع نہ کریں۔ جج نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا وہ اپنے ایسے بیانات کے ذریعے پاک فوج کا مورال کم کرنا چاہتے ہیں۔
پیر کو صدر عارف علوی نے بھی عمران خان کے بیان پر ناراضی کا اظہار کیا کہ عمران خان اپنے بیان کی وضاحت خود کریں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، صدر نے پشاور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پا ک فوج، اس کے کردار اور قربانیوں کی تعریف کی۔
عمران خان کا بیان مستقل کے آرمی چیف پر دبائو ڈالنے اور سیاست زدہ بنانے کی کوشش ہے کیونکہ وہ اُن سے اپنے سیاسی مفادات کیلئے مکمل حمایت چاہتے ہیں لیکن اگر نئے آرمی چیف نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا اور موجودہ حکومت کے احکامات پر عمل کیا تو عمران خان نئی فوجی قیادت پر بھی تنقید کریں گے۔
عمران خان کے بیان نے اس وقت نئے آرمی چیف کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں جس وقت کوئی نہیں جانتا کہ نیا چیف کون ہوگا۔ جو عمران خان کی خواہشات پر عمل کرے وہی ’’محب وطن‘‘ ہوگا۔ دوسروں کا کیا؟ عمران خان کو واضح کرنا ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نئے آرمی چیف سے توقع کرتے ہیں کہ وہ نواز اور زرداری کا احتساب کرے جبکہ آئین اور قانون کے تحت آرمی چیف کا ایسا کوئی کردار نہیں۔
وزیراعظم آفس سے نکال باہر کیے جانے کے بعد سے عمران خان کا مرکزی ہدف ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ رہی ہے جس پر وہ اپنی حکومت ہٹانے کی امریکی سازش کا حصہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
اپنے چیف آف اسٹاف شہباز گل کے بیان کے بعد عمران خان کے تازہ ترین بیان کو کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ فوج کی سرخ لکیر کو عبور کرنے جیسا ہے۔ اسی دوران پاک فوج نے پیر کو عمران خان کے بیان پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔
فوج کے میڈیا ونگ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سینئر قیادت کے حوالے سے عمران خان کے ناقابل قبول اور توہین آمیز بیانات پر فوج میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔