• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھوٹکی، سندھ پنجاب کے سرحدی علاقے میں 184 سے زائد یرغمال مغویوں کا انکشاف، علاقہ نوگو ایریا بن گیا۔ پولیس حکام کو سکھر ڈویژن گھوٹکی اور رحیم یارخان کے افسران تبدیل کرنے پڑگئے، سکھر بیراج سے ملنی والی 12 لاشوں میں 10 تاوان ادا نہ کرنے والے مغویوں کی ہوسکتی ہیں۔ آئی جی سندھ کی جانب سے نئے ، ڈی آئی جی سکھر اور ایس ایس پی گھوٹکی کی تعیناتی کے بعد ڈاکوؤں کے گروہ میں کھلبلی مچ گئی۔ ڈاکوؤں نے پولیس کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں اور غیراخلاقی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈاؤن لوڈ کردی جوکہ پولیس کے لیے کُھلا چیلنج بن گئی ہے۔

پانچ تحصیلوں اوباڑو، ڈہرکی ضلعی صدر مقام میرپورماتھیلو، خانپور مہراور گھوٹکی پر مشتمل ضلع گھوٹکی قدرتی گیس کے وسائل سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذرعی علاقہ بھی ہے۔ گیس جیسی قدرتی نعمت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے یہاں پر ملکی ضروریات کو پورا کرنے والے یوریا کھاد بنانے والے دو بڑے کارخانے اور پاکستان کی سب سے بڑی گیس فیلڈ قادر پور، اس کے بعد ماڑی گیس فیلڈ ڈہرکی، مارو گیس فیلڈ اوباڑو، اور تین پاور پلانٹ موجود ہیں۔ 

16 لاکھ سے زائد آبادی کے اس ضلع میں بد قسمتی سے امن و امان کی صورت حال مستقل طور پر قابل رشک نہیں رہی ہے اور ڈاکوؤں نے بھی بدلتے حالات و واقعات کے مطابق اپنا طریقہ واردات تبدیل کرلیا ہے اور جدید طریقے استعمال کرنا شروع کردئیے ہیں۔ اس وقت رحیم یارخان، گھوٹکی ، کشمور ، راجن پور دریا کے اس پار اور اس پار کا علاقہ ڈاکوؤں کے لیے محفوظ آماج گاہ اور نو گو ایریا بن گیا ہے اور پچاس کلو میٹر چوڑا اور سینکڑوں میٹر لمبا دریائی علاقے میں گھنا جنگل، بہتا پانی ،گنے کی فصلیں، ڈاکوؤں کی ڈھال سمجھی جاتی ہے۔ 

انڈھر ، لونڈ، شر، بکھرانی، کوش لٹھیانی سکھیانی گینگ جدید اسلحے سے لیس ہیں، جس میں راکٹ لانچر ، اینٹی ایئر گرافٹ گن اور دور تک مار کرنے والا جدید اسلحہ گولہ بارود موجود ہے۔ ان گروہوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے اور شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ سرحدی ضلع رحیم یارخان میں تو ڈاکو اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، دن دیہاڑے اور رات کے اوقات میں آئے روز کر رہے ہیں اور کچے میں با آسانی فرار ہو جاتے ہیں اور پولیس ایڑی چھوٹی کا زور لگانے کے باوجود انہیں اپنی گرفت میں لینے میں ناکام ہے۔ 

ضلع رحیم یارخان میں ڈاکوؤں نے اب تک 19 سے زاید شہریوں کو ڈکیتی اور اغوا کے دوران سرعام قتل کیا اور 35 سے زائد افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا جس میں 27 افراد کو بھاری تاوان لےکر رہا کیا گیا ہے۔ ضلع رحیم یارخان کے متعدد ڈسٹرکٹ پولیس افسران کا تبادلہ کیے جانے کے باوجود امن وامان ابھی تک قائم نہیں کیا جا سکا ہے اور اس وقت بھی ضلع رحیم یارخان، گھوٹکی اور کشمور کے دریائی سرحدی پٹی میں 184 سے زائد مختلف علاقوں ساہیوال، لیہ، سیالکوٹ، کراچی اسلام آباد، لاھور، مریدکے ،پنڈی، جھنگ، کے شہری ڈاکوؤں کے پاس یرغمال ہیں اور مویشی منڈیوں کی طرح سرے عام تاوان طلب کررہے ہیں، جنہیں رہائی کے لیے ایک کروڑ روپے فی کس طلب کیا جاتا ہے اور 15 سے 20 لاکھ تک کی ڈیل کے بعد تاوان لےکر رہا کر دیا جاتا ہے۔ 

سب سے زیادہ اغوا کی واردات ہنی ٹریپ کے ذریعے کی جار ہی ہیں، یعنی کے بعض مرد ڈاکو خواتین کی آواز میں جذباتی کر کے اور شادی کا جھانسہ دےکر بلاتے ہیں اور اغوا کر لیتے ہیں، جب کہ بعض ڈاکوؤں کے گروپ نے خُوب صورت لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے، جو موبائل فون کے ذریعے اچھے خاصے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر بھاری جائیداد شادی کو جھانسہ دیتے ہیں اور رومانس کی باتیں کر کے جال میں پھنسا کر بلاتے ہیں اور اکثر لوگ خوشی خوشی تحائف کے ساتھ ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔

دوسرا طریقہ واردات سوشل میڈیا پر ٹریکٹر ٹرالی کی فروخت کا ہے اورعام کہاوت بھی ہے کہ جب تک لالچی زندہ ہے، ٹھگ بھوکا نہیں رہ سکتا۔ اغوا کار ٹریکٹر برائے فرواخت کا اشتہار چلاتے ہیں، یہی نہیں بلکہ کچے میں موجود ان پڑھ ڈاکو حکومتی پالیسیوں کا بھی خُوب استعمال کر کے لوگوں کو بیوقوف بنا کر اغوا کر رہے ہیں، جیسا کہ عمران خان کی حکومت نے اقتدار کے دوران مویشی پالنے کا شعور اجاگر کیا تھا اور ساتھ میں حکومت نے پنجاب بھر کے وٹنری ڈاکٹروں کی فہرست جاری کی گئی تھی، جس میں ان کے موبائل نمبر بھی شائع کرائے تھے اور ہدایت کی گئی تھی کہ گھر گھر جا کر ڈاکٹر کسانوں کی کال پر جانوروں کا اعلاج کریں ، اس کی بدولت ڈاکوؤں نے اس کا خوب استعمال کیا اور ایسے 14 وٹنری ڈاکٹروں کو بلا کر اغوا کر لیا اور تاوان لےکر رہا کیا، اسی طرح حکومتی پالیسی کے تحت حکومت نے محکمہ زراعت کے اہل کاروں کی فہرست بھی جاری کی تھی تاکہ کسان رابطہ کر کے مفید مشاورت حاصل کریں اور فصلوں کی زیادہ پیداوار حاصل کریں۔ کسانوں کی بہ جائے ڈاکوؤں نے 4 زرعی ماہرین کو بلا کر اغوا کیا۔

اس کے علاوہ بھونگ کے علاقے سے اسلحہ کے زور پر ایک درجن ڈاکوؤں نے کلینک پر سوئے ہوئے ڈاکٹر کو اغوا کیا اور کچے لے گئے ۔ موٹر وے 5 کے قریب سے فیڈر کھول کر واپس آنے والے میپکو کے دو لائن سپریڈنٹوں کو اغوا کرلیا۔ صادق آباد کے ڈسپینسر کو اس کی نواحی علاقے کی کلینک سے اغوا کرلیا ۔ جمالدین والی کے قریب سے دو لڑکوں کو سرے عام اغوا کر لیا، جس میں ایک کو رہا کردیا اور کچے کی مصدقہ اطلاعات معلومات کے مطابق اس وقت کچے کے علاقے میں 184 سے زائد شہری اغوا کاروں کے پاس یرغمال ہیں، جن کا تعلق رحیم یارخان، سیال کوٹ ، اسلام آباد، کراچی ، لاہور، ساہیوال، لیہ پنڈی، کراچی و دیگر علاقوں سے ہے، جو اپنے پیاروں کو ملنے کے لیے بے تاب ہیں،جب کہ کچے سے ملنے والی معلومات کے مطابق ایک بھیانک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سکھر بیراج سے ملنے والی 12 لاشوں میں 10 ان مغویوں کی بتائی جاتی ہیں، جو ڈاکوؤں کو تاوان نہیں دے سکے یا پھر دل کا دورہ پڑنے یا مشکلات جھیلتے وقت یا پھر دریا کی بے رحم موجوں کی زد میں آکر انتقال کر گئے تھے۔

حال ہی میں ڈاکوؤں کے چنگل سے بازیابی پانے والے ساہیوال کے نوجوان مغوی نے بتایا کہ وہ لڑکی کی آواز میں باتیں کرنے والے اغوا کار کی جھانسے میں پھنس کر یہاں پہنچا تھا ، اسے دریائی جزیرے میں رکھا گیا اور اسے زنجیروں سے باندھ کر رکھتے تھے، تشدد کرتے تھے، ایک ماہ تک سخت ذہنی اذیت سے دوچار رہا اور 15 لاکھ تاوان دے کر آیا ہوں، وہ ہنی ٹریپ ہوئے یعنی رومانس میں پھنس گیا ۔ صادق آباد بلایا، اس کے بعد کچے کے قریب بلا کر اغوا کر کیا اور آج 43 دن بعد رہائی نصیب ہوئی ہے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید