• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(آخری قسط)

مسقط عمان سے جو سفر شروع ہوا تھا وہ مسقط سے دبئی، دبئی سے شارجہ اور شارجہ سے ابوظہبی پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ مسقط اور دبئی کا کچھ تذکرہ گزشتہ کالم میں آ چکا ہے، مگر کچھ حصہ ابھی باقی ہے۔ اس بار مسقط کے نامور بزنس مین یٰسین بھٹی سے دوسری ملاقات بھی قسمت میں لکھی تھی، پہلی ملاقات چند برس پیشتر ان کے گھر پر ہوئی تھی جہاں انہوں نے ہمیں کھانے پر مدعو کیا تھا، پرتکلف کھانا اپنی جگہ مگر انہوں نے کھانے کے دوران اپنی فلپائنی میڈ کو جس طرح خالص انگریزوں ایسے انداز سے ایک غلطی پر ڈانٹااس کا مزہ میں بہت دیر تک لیتا رہا تھا۔ اس دفعہ تو ان کے صاحبزادے یاسر سے بھی ملاقات ہوئی جس کی ساری تعلیم یورپ کی یونیورسٹیوں کی ہے۔ بھٹی صاحب نے اس دفعہ گھر کی بجائے ایک ریستوران میں ہماری پوری ٹیم بلکہ پاکستان فیسٹیول کے تمام منتظمین کو لنچ پر مدعو کیا تھا، اسی طرح چوہدری اسلم صاحب سے بھی ملاقات کا موقع ملا، چوہدری صاحب سفید داڑھی، پررونق چہرے کی حامل کمال کی شخصیت ہیں، میری ان سے یہ چوتھی ملاقات تھی جن میں سے ایک ملاقات کا موقع لاہور میں ملا تھا، چوہدری اسلم، امیر حمزہ اور قمر ریاض ایک بڑے عمانی وفد کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوئی، دل شاد ہوا۔

مسقط میں ایک دوست کو میں نے بہت زیادہ مس کیا، یہ مروت حسین تھے، سراپا مروت یعنی اسم بامسمیٰ، وہ مسقط کی ہر تقریب میں قمر ریاض کے دست و بازو ہوتے تھے۔ مہمانوں کے استقبال کا ان کا انداز دیدنی تھا اور فوٹو گرافر کو ہدایات دیتے وقت وہ شاعر سے زیادہ ہدایت کار لگتے تھے۔ ایسے مواقع پر بلکہ آگے پیچھے بھی ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار ہوتے تھے ، وہ سچ مچ پریشان نہیں ہوتے تھے، بس لگتے تھے، میانہ قد، چہرے پر عمر سے پہلے سفید ہونے والی گھنی داڑھی اور مسلسل متحرک،وہ اب لندن شفٹ ہو چکے ہیں، میں سوچتا ہوں ان کے ہمسائے میں رہنے والی کوئی میم ان کے پاس کرٹسی کال کے طور پر آتی ہوگی تو ان کاتپاک دیکھ کر اللہ جانے کیا سوچتی ہوگی؟

مسقط سے جب ہم لوگ دبئی آئے تو میرے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اپنے دوستوں سے ملنے شارجہ نہ جائوں، دبئی سے شارجہ کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا مال روڈ لاہور سے ماڈل ٹائون تک کا ، چنانچہ میں نے غوث قادری صاحب کو فون کیا اور اپنی آمد کی اطلاع دی تو یہ محبت کرنے والاانسان کھل اٹھا۔ انہوں نے لنچ پر مدعو کیا، جس کے بارے میں مجھے پہلے علم تھا کہ وہاں مسلم لیگ (ن) کے تمام جیالے جمع ہوںگے۔ قادری صاحب جنون کی حد تک نواز شریف صاحب کے عشق میں مبتلا ہیں اور پارٹی کے لئے ہر وقت کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں، مگر اس دفعہ میں نے شارجہ جانے کا جوارادہ کیا تھا وہ یہ سوچ کر ڈراپ کردیا کہ کئی دنوں سے دوستوں کے ہجوم میں رہنے کی وجہ سے اب تھوڑی سی تنہائی کو بھی جی چاہنے لگاتھا، چنانچہ میں نے غوث قادری صاحب سے کہا کہ آپ میرے ہوٹل تشریف لے آئیں۔ اسی طرح شارجہ میں نوجوان خوش نما کاشف محمودسے میرا محبت کا رشتہ ہے، انہیں بھی اپنی آمد کی اطلاع دی، چنانچہ ان دونوں دوستوں سے بہت اچھی گپ شپ رہی۔ کاشف محمود کا یہ ہے کہ گزشتہ دورۂ دبئی کے موقع پر انہوں نے میرے ساتھ آئے ہوئے ادبی وفد کو دبئی کے ان مقامات کی سیر کرائی تھی جن کی ’’زیارت‘‘ اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ دورہ ان کی وجہ سے انتہائی یادگار رہا۔ سو کاشف محمود اس دفعہ بھی میرے ہوٹل چلے آئے اور خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے ’’چار‘‘ ۔ چار اس طرح کے دبئی کے ہوٹل میں ،میں، گل نوخیز اختر اورعذیر احمد ٹھہرے ہوئے تھے، سو تین ہم ہوگئے، چوتھے کاشف محمود۔ ہمارے کمرے بھی غوث قادری صاحب اور کاشف محمود صاحب ہی نے بک کرائے تھے۔اور یوں ہم ان کے مہمان تھے۔

تھوڑا سا ذکر دبئی کی گرمی کا، اس کے بعد ہم ابوظہبی چلتے ہیں، دبئی میں جتنی گرمی پڑ رہی تھی، اس کا اندازہ لگانا چاہیں تو میرؔ انیس نے کربلا کے میدا ن میں جس گرمی کا ذکر کیا ہے، بس اسے ذہن میں رکھ لیں۔ ایئرکنڈیشنڈ کار یا ایئرکنڈیشنڈ ہوٹل سے باہر قدم رکھتے ہی لُو کا جو تھپیڑاتھپڑ کی صورت منہ پر پڑتا تھا اس سے منہ اتنا تپنے لگتا تھا کہ اس پر روٹی پکائی جا سکتی تھی۔ بہرحال اب ہماری اگلی منزل ابوظہبی تھی۔ ابوظہبی کے قائم مقام سفیر امتیاز فیروز گوندل نے ہمیں ابوظہبی لے جانے کیلئے گاڑی بھیجی تھی۔ جب ہم اپنی منزل پر پہنچ کر کار سے اترے تو لُو کے تھپیڑے سے لگاکہ واپس دبئی پہنچ گئے ہیں۔ امتیاز فیروز گوندل میرے بیٹے عمر قاسمی کےبیچ میٹ ہیں، چنانچہ وہ عمر کا حال احوال پوچھتے رہے۔ بہرحال ابوظہبی کا مشاعرہ بھی بھرپور رہا۔ اس میں ہم پاکستان سے آئے ہوئے شعراء عباس تابش، نوخیز اختر اور عذیر احمد نے اپنا کلام اور میں نے اپنا ’’صدارتی کلام‘‘ سنایا۔ یہاں ظہور الاسلام جاوید اور یعقوب تصور کو بھی سننے کا موقع ملا۔ ان دونوں دوستوں سے ادبی دوستی کئی عشروں پر محیط ہے، چنانچہ انہیں اچانک اپنے سامنے پا کر بے اختیار ؎

اے دوست کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا

بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

والا شعر یاد آیا۔ قمر ریاض کے علی پور چٹھہ کے دوست ثاقب نگینہ نے بھی اپنا کلام سنایا اور ابوظہبی کے نوجوان شاعروں کا خوبصورت کلام بھی سننے کا موقع ملا۔اور اگلے دن ہم واپس لاہور آنے کیلئے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ لاہور پیارا لاہور۔

تازہ ترین