ملاوٹ شدہ و مضر صحت اشیاء کی تیاری اور فروخت کرنے والے انسانی جانوں کے دشمن بن گئے، سکھر و گرد و نواح کے علاقوں میں ملاوٹ شدہ مضر صحت پسی ہوئی مرچوں کا گھناوٴنا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے، سکھر ملاوٹ شدہ مضر صحت مرچوں کی بڑی منڈی بن گیا ہے۔ منافع کے لالچی افراد راتوں رات دولت مند بننے کے لالچ میں انسانی جانوں کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور مضر صحت پسی ہوئی مرچیں عوام کو کھلا کر انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں، مگر انتظامیہ، پولیس، محکمہ صحت، میونسپل کارپوریشن، فوڈ کنٹرول اتھارٹی اور متعلقہ محکموں نے اس جانب سے مکمل طور پر چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے اور ملاوٹ شدہ مضر صحت پسی ہوئی مرچوں کی فروخت کا گھناوٴنا کاروبار کرنے والوں کےخلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ملاوٹ شدہ مرچوں کی فروخت کے کاروبار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اس وقت سکھر ملاوٹ شدہ اور مضر صحت پسی ہوئی مرچوں کی بڑی ہولسیل منڈی بن گیا ہے، مرچوں میں ملاوٹ کرنے والے عناصر بھینسوں کو کھلائی جانے والی چوکر پیس کر مضر صحت رنگ اور دیگر اشیاء کیمیکل کا استعمال کرتے ہیں، یہ بات کسی حیرت سے کم نہیں کہ ثابت مرچوں کے مقابلے میں پسی ہوئی مرچیں انتہائی کم نرخوں پر ہول سیل مارکیٹوں میں دستیاب ہیں، جب کہ سکھر سائٹ ایریا سمیت گردونواح کے علاقوں میں پِسی ہوئی مرچوں میں ملاوٹ کا گھناونا کاروبار کرنے والے افراد بلا خوف و خطر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر پولیس، انتظامیہ ،محکمہ صحت فوڈ کنٹرول اتھارٹی میونسپل کارپوریشن کا شعبہ صحت و دیگر متعلقہ محکموں کی جانب سے انتہائی خطرناک مضر صحت پسی ہوئی مرچیں تیار کرکے مارکیٹوں میں فروخت کرنے والے افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ماضی میں چند سال قبل پولیس کی جانب سے ملاوٹ شدہ مضر صحت مرچیں فروخت کرنےوالوں کےخلاف متعدد کارروائیاں کی گئی تھیں اور کئی کارخانے و فیکٹریاں سیل بھی ہوئی تھیں ، جس سے یہ کاروبار بڑی حد تک رُک گیا تھا اور یہ گھناونا کاروبار کرنے والے لوگ دیگر شہروں میں منتقل ہوگئے تھے، مگر اب پولیس اور متعلقہ محکموں کی عدم توجہی کے باعث ایک بار پھر یہ لوگ سرگرم ہوگئے ہیں۔ سائٹ ایریا ،گولیمار سمیت بعض دیگر علاقوں میں مرچوں کی پسائی کرنے والے کارخانے موجود ہیں، جہاں سے روزانہ سینکڑوں بوریاں پیس کر ملاوٹ کرنے کے بعد سکھر شہر سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں بھیجی جاتی ہیں۔
تھانہ اے سیکشن، بی سیکشن، سائیٹ اور نیوپنڈ ،ان چاروں تھانوں کی حدود میں مضر صحت ملاوٹ شدہ مرچوں کی تیاری اور فروخت کا کاروبار جاری ہے، مضر صحت مرچوں کی بڑی منڈی تھانہ سائیٹ اور بی سیکشن تھانے کی حدود میں موجود ہے، جب کہ تھانہ اے سیکشن و دیگر تھانوں کی حدود سے یہ مضر صحت مرچیں مختلف علاقوں میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے چند سال قبل ملاوٹ شدہ غیر معیاری اور انسانی جانوں نقصان پہنچانے والی اشیاء خوردنوش کی فروخت روکنے کے لیے سندھ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، مگر وہ بھی بے سود ثابت ہوا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فوڈ کنٹرول اتھارٹی کے محمکے کو ختم یا غیر فعال کردیا گیا ہو، کیوں کہ مرچوں سمیت دیگر اشیاء میں ملاوٹ غیر معیاری اشیاء خورودنوش کی خرید و فروخت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، چند ماہ قبل تک فوڈ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے سکھر اور دیگر شہروں میں کبھی کبھی کوئی کارروائی سامنے آتی تھی، اب وہ بھی دکھائی نہیں دیتی، جب کہ پولیس سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے افسران بھی کوئی اقدامات کرتے دکھائی نہیں دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے بھی مضر صحت اشیاء فروخت کرنے والوں کی جانب سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ میونسپل کارپوریشن کا شعبہ صحت بھی مکمل طور پر غیر فعال دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں میونسپل کارپوریشن کے شعبہ ہیلتھ میں ایک فوڈ انسپکٹر تعینات ہوتا تھا، جو کہ ملاوٹ شدہ مضر صحت اشیاء کی فروخت کی شکایات پر کارروائی کرتا تھا، جس کے متعلق یہ شکایت ملتی تھی کہ ملاوٹ شدہ و مضر صحت اشیاء تیار یا فروخت ہورہی ہیں، انہیں تحویل میں لےکر فوڈ لیبارٹری میں اس کا تجزیہ کیا جاتا تھا اور ملاوٹ ثابت ہونے پر متعلقہ دُکان دار کےخلاف قانونی کارروائی کی جاتی تھی، لیکن طویل عرصے سے میونسپل کارپوریشن کے شعبہ ہیلتھ نے بھی اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شعبہ ہیلتھ کے فوڈ انسپکٹر کی اسامی گزشتہ ڈیڑھ سال سے خالی ہے، جس پر کسی کو بھرتی نہیں کیا گیا ہے، جو کہ متعلقہ محکموں کے افسران کی عوامی مسائل سے چشم پوشی، غفلت و لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ متعلقہ محکموں کے افسران کی خاموشی نے ملاوٹ شدہ اشیاء تیار اور فروخت کرنےوالوں کے حوصلے بلند کردیے ہیں اور وہ بغیر کسی خوف و خطر کے گھناؤنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں، ایک جانب شہر بھر میں مختلف اقسام کی مضر صحت، ملاوٹ شدہ اشیاء فروخت کی جارہی ہیں، تو دوسری جانب ملاوٹ شدہ مرچ کے حوالے سے سکھر ایک بڑی منڈی بن گیا ہے، ملاوٹ شدہ مرچ بڑے پیمانے پر تیار ہوکر مارکیٹ میں فروخت کے لیے لائی جارہی ہے، معیاری مرچ کے مقابلے میں ملاوٹ شدہ مرچ سستے ہونے کا سوچ کر غریب و متوسط طبقے کے لوگ اس کا زیادہ استعمال کررہے ہیں اور مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ سکھر کی مارکیٹوں میں اس وقت ثابت مرچ کی قیمت فی کلو 1000 روپے ہے، جب کہ پسی ہوئی ملاوٹ شدہ مرچیں مارکیٹ میں 400 روپے فی کلو سے لے کر 500 روپے فی کلو تک دستیاب ہیں۔
مرچوں کے کام کرنے والے ایک تاجر کے مطابق سکھر سائٹ ایریا گولیمار میں موجود بعض مرچیں پیسنے والے چکی مالکان ملاوٹ شدہ مرچوں کے کاروبار میں ملوث ہیں، جن کا سکھر پولیس اور تھانہ سائٹ اے سیکشن سمیت دیگر تھانوں اور پولیس کو علم بھی ہے، مرچیں پیسنے والی چکیوں میں بھینسوں کو کھلائی جانے والی چوکر کو پیس کر اسے غیر معیاری اور مضر صحت رنگ دیا جاتا ہے، لال اور زرد رنگ دیے جانے کے بعد یہ چوکر پسائی کی گئی اصلی مرچوں میں ملا دی جاتی ہیں، ذرائع کے مطابق جو لال اور زرد رنگ استعمال کیا جاتا ہے، یہ چمڑے کو رنگ دینے والا انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ شہر میں مرچوں کی ہول سیل منڈی سمیت دیگر علاقوں میں دکانوں پر عام طور پر جو مرچیں رکھی گئی ہیں ان میں پسی ہوئی مرچیں 1100 روپے سے لے کر 1200 روپے فی کلو تک فروخت کی جاتی ہیں۔
جبکہ غیر معیاری مرچیں 400 سے 500 روپے تک فروخت ہوتی ہیں، مقامی تاجر کے مطابق بھینسوں کو کھلائی جانے والی چوکر کو پیس کر اسے مرچوں کا رنگ دے کر ہول سیل منڈیوں میں 16 ہزار روپے فی من یعنی 400 روپے فی کلو فروخت کی جاتی ہیں، پسی ہوئی چوکر جو کہ رنگ دینے اور مختلف قسم کے کیمکل ملانے کے بعد مرچوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے ، جس کے بعد یہ مرچیں ہول سیل منڈیوں سمیت پرچون کی دکانوں پر انتہائی سستے داموں میں فروخت ہوتی ہیں، تاہم مرچوں کا کام کرنے والے دکان داروں کا کہنا ہے کہ اصل مرچ 1100 سے 1200 روپے فی کلو مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
پولیس ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ملاوٹ شدہ مرچیں پکڑ بھی لی جائیں، تو بعد میں ان مرچوں کو تبدیل کردیا جاتا ہے اور ان کی جگہ اصل مرچیں رکھ دی جاتی ہیں، جس سے کیس صاف ہوجاتا ہے اور ملزم سزا سے بچ جاتے ہیں، لیکن اب تو کافی وقت سے پولیس نے کوئی کارروائی ہی نہیں کی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ گھناؤنے دھندے کے خلاف کارروائی شاید پولیس کی بھی ذمے داری نہیں ہے، یہ گھناؤنا کام مدت سے اپنے عروج پر ہے اور لوگ پیسے کی لالچ میں انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں، لیکن اس کے خلاف کارروائی کا نہ ہونا کسی حیرت سے کم نہیں ہے۔
شہریوں کا مطالبہ ہے کہ بھینسوں کو کھلانے والی چوکر پیس کر مرچوں میں شامل کر کے فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے کہ جس سے ملاوٹ شدہ مرچوں اور دیگر اشیاء کا گھناونا کاروبار نہ صرف روکا جائے، بلکہ اس کا مکمل قلع قمع کیا جائے۔