• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اولمپین منظور جونیئر عہد ساز شخصیت ’’گوڈ میڈلز کا خزانہ‘‘

سابق قومی ہاکی کپتان اولمپین منظور جونیئر کا شماران چند پاکستانی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے، جس نے اس کھیل میں دنیا کے تمام گولڈمیڈل اپنے نام کیے، دو میگا ٹورنامنٹ 979 میں پہلا جونیئر ورلڈکپ اور 1984 کا اولمپک ٹورنامنٹ جس میں منظور جونیئر نے کپتانی بھی کی یہ ایک ریکارڈ ہے، دوسرا اعزاز ہاکی کھیل سے منسلک ہے کہ پاکستان کے ان چند کھلاڑیوں میں تھے جس کی مرضی پر گیندان کی محتاج نظر آتی تھی، ان کابال کنٹرول قابل دید تھا۔ 

ان کا کلائی ،اسٹک اور فٹ ورک مثالی تھا،وہ گیند کو جس انداز میں گھوماتے اور گینڈ کو پاس کرتے تھے اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی ہے۔ میرا تعلق منظور سے اس کے بچپن کے زمانے سے ہے، میرے آبائی شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوا۔ وہ آزاد ہاکی کلب کا ممبر تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں پاکستان کا کلب سسٹم بہت مظبوط تھا، میرے کلب نے پاکستان کو 10 کھلاڑی مہیا کئے جس میں7 اولمپئینز شامل ہیں۔ بچپن ہی سے اس کی کھیل سے وابستگی اور محبت بے پناہ تھی اس نے شام کی پریکٹس کبھی مس نہیں کی ، ہلکی بارش میں بھی شام کو ٹریننگ کرتا تھا، کیونکہ سیالکوٹ میں ہم جس گراؤنڈ میں پریکٹس کرتے تھےاس پر گھاس نہیں تھی۔ 

آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جو کھلاڑی سال میں 365 دن محنت کر ے تو وہ منظور جونیئر ہی ہوگا، پاکستان کی آزادی کے تمام کھیل تعلیمی اداروں کے ماتحت تھے، کلب سسٹم مضبوط تھا، ہر ٹور نامنٹ کا معیار یکساں تھا، کھلاڑیوں کا ٹمپرامنٹ ایک جیسا تھا، اداروں نے ہاکی کھلاڑیوں کو معاشی طور پر مستحکم بنایا، لیکن افسوس یہ سسٹم ختم ہوگیا ہے اور ہاکی کا حال ہمارے سامنے ہے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ہم اس سسٹم کو دوبارہ بحال کردیں وہ پاکستانی ہاکی کا دوبارہ عروج کا زمانہ آسکتا ہے۔ بس حکومت پاکستان اور فیڈریشن درخواست کروں گا۔ 

ان چیزوں پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے ورنہ مختلف تجربات سے وقت توگزار جائے گا لیکن ہم بجائے اوپر جانے کے مزید گہرائی کی طرف جائیں گے۔ ہم ماضی کے نظام سے ایک بار پھر منظورجونیئر ، رشیدجونیئر، بریگیڈیئر حمیدی، ملیح اللہ، انوراحمد، حبیب الرحمن، وحید خان، نصیر بندہ، بریگیڈیئر عاطف اور وکلا وین اور منیرڈار جسے لیجنڈز پیدا کرسکتے ہیں ، منظور جونیئر نے 1971میں پی آئی اے میں ملازمت اختیار کرلی تھی قومی ہاکی چیمپین شپ ملتان میں تھی منظور کا مجھے سیالکوٹ سے فون کہ اس کو لاہورکی ٹیم میں شامل نہیں کیا ، میں نے اس سلسلے میں شفیع اللہ کے بڑے بھائی ہدایت اللہ سے منظور کو بہاولپور سے کھلانے کو کہا انہوں نے اسے ٹیم میں شامل کرلیا۔

منظورجونیئر اپنی پہلی قومی چیمپین شپ بہاولپور سے کھیلا اور 1974 میں پاکستان کی ٹیم میں شامل ہوگیا اور پھر اس کے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ہر بات میں وہ مجھ سے مشورہ کرتا تھا۔ 1975 ورلڈکپ بھارت کا فل بیک سبحت سنگھ اس کو میچ کے دوران کو گالیاں دیتا تھا، تو میں نے کہ تم بھی اس کو گالیاں دو تو منظور کا جواب تھا کہ میں اس کو اپنے بال کنٹرول سے بندر بناؤں گا۔ بہت نرم طبیعت کا مالک تھا لیکن میدان سے باہر مگرمیدان میں وہ حریف کے لئےایک بہت بڑی مصیبت تھا، مانٹریالاولمپکس گیمز1976 میں کینیڈا کی میڈیکل ٹیم نے اس کے اسٹک ورک سے متاثر ہوکر اس کی کلائی اور ہڈیوں کا ناپ لیا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کینیڈا کی فیڈریشن کے لوگ تھے۔

اور ایسے ہی کئی واقعات ہیں جو صرف منظور کا خاصہ تھا اس تحریر سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میری اس سے کتنی قریبی اور لمبی وابستگی تھی منظور جس طرح باہر سے پاک اور صاف تھا اسی طرح اندرسے بھی بہت نرم مزاج تھا۔ ہمیں اس جیسے ہیرو کی قدر کرنا چاہئے تھی،اب بھی اس کے نام سے ایوراڈ کا اجراء کیا جائے، سیالکوٹ اس سے موسوم کیا جائے تاکہ اس کی خدمات کا کچھ حق ادا ہوسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ (بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا)

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید