• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

شان مسعود کے خلاف چیف سلیکٹر کو اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا

انگلش کرکٹ ٹیم کا17سال بعد پاکستان آنا خوش گوار خبر ہے،انگلش ٹیم کی آمد کے چند گھنٹے بعد سلیکٹرز نے جس ٹیم کا اعلان کیا وہ مایوس کن ہے۔کراچی کے شان مسعود کو تو مسلسل محنت کا صلہ مل گیا لیکن سرفراز احمد کو جس طرح نظر انداز کیا گیا، وہ واقعی ہمارے سسٹم کی خرابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سرفراز احمد ساڑھے تین سال سے جس طرح نظر انداز ہورہے ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ محمد حارث بھی باصلاحیت ہوسکتے ہیں لیکن حالیہ ویسٹ انڈیز سیریز میں وہ جس طرح ناکام ہوئے اس کے بعد بڑی ٹیموں کے خلاف اور بغیر کسی کارکردگی کے انہیں ٹیم میں شامل کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

ورلڈ کپ اسکواڈ میں محمد حارث کو ریزرو کھلاڑی کے طور پر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ سرفراز احمد کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر لیا گیا ہے۔کراچی کے شان مسعود کو شائد اس لئے موقع مل گیا کہ فخر زمان گھٹنے کی انجری میں مبتلا ہیں ورنہ جہاں تک شان مسعود کی سلیکشن کا تعلق ہے تو چیف سلیکٹر محمد وسیم حالیہ دنوں میں یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے تھے کہ شان مسعود چونکہ اوپنر ہیں لہذا بابر اعظم اور محمد رضوان کی موجودگی میں ان کا سلیکشن اوپر کے نمبر پر ممکن نہیں لیکن شان مسعود نے نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں مڈل آرڈر بیٹسمین کی حیثیت سے کھیلتے ہوئے اپنے سلیکشن کو ممکن بنا ڈالا اور اب چیف سلیکٹر بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اوپر بھی کھیل سکتے ہیں اور مڈل آرڈر میں بھی۔شان مسعود اس سال ٹی ٹوئنٹی میچوں میں مجموعی طور پر 1257 رنزبنا چکے ہیں اور ان کا اسٹرائیک ریٹ136 ہے۔

شعیب ملک پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ٹیم کا حصہ تھے اور انہوں نے اسکاٹ لینڈ کے خلاف چھ چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے ناقابل شکست نصف سنچری بھی بنائی تھی لیکن اس کے بعد آسٹریلیا اور پھر بنگلہ دیش کے خلاف وہ ایک رن اور صفر پر آؤٹ ہونےکے بعد ٹیم سے باہر ہو گئے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا ٹی ٹوئینٹی ٹورنامنٹ چل رہا ہے اس ٹورنامنٹ میں سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹا کر سعود شکیل کو سندھ کا کپتان بنایا گیا۔

حالانکہ سعود شکیل پاکستان کی جانب سے وائٹ بال نہیں کھیلتے اگر عمر کی وجہ سے سرفراز احمد کو کپتانی نہیں دی گئی تو دیگر ٹیموں میں ایسے کھلاڑی کپتان ہیں جو شائد مستقبل میں پاکستان کی جانب سے ٹی ٹوئینٹی نہیں کھیلیں گے۔لیکن محمد وسیم جس طرح کی سلیکشن کررہے ہیں وہ افسوس ناک ہے۔ اس وقت سسٹم میں خامیاں کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ 

ناقص سلیکشن کے باوجود دعا ہے کہ تینوں ٹورنامنٹس میں پاکستانی ٹیم فاتح بنے۔ پاکستانی ٹیم کا پہلا امتحان انگلش کرکٹ ٹیم کے خلاف سات میچوں کی سیریز ہے۔ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ستمبر 2022کے بجائے ستمبر 2021 میں ہی پاکستان کا دورہ کرنے والی تھی اور نہ صرف انگلینڈ کی مردوں کی ٹیم بلکہ خواتین ٹیم بھی پہلی بار پاکستان آنے والی تھی لیکن انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے پاکستان میں سکیورٹی خدشات کو جواز بنا کر اپنی دونوں ٹیموں کے دورے منسوخ کر دیے۔ 

انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے یہ قدم نیوزی لینڈ کو دیکھ کر اٹھایا تھا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آچکی تھی لیکن راولپنڈی میں پہلے ون ڈے انٹرنیشنل سے کچھ دیر قبل سکیورٹی خدشات ظاہر کر کے وطن واپس جانے کے فیصلہ نے نہ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ بلکہ پاکستان کی حکومت کو حیران کر دیا تھا۔

یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو خود نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے بات کرنی پڑی تھی تاہم اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو سکا تھا۔نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کو اپنے اس فیصلے پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کے سخت مؤقف کے بعد اس نے اس برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پہلے مرحلے میں یہ سات ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز ہو گی جبکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ کی ٹیم ٹیسٹ سیریز کھیلنے دوبارہ پاکستان آئے گی۔اس وقت ملک سیلاب کی زد میں ہے کروڑوں پاکستانی اس آفت میں گھرے ہوئے ہیں اور ایسے میں یہ سیریز یقینی طور پر ان مرجھائے ہوئے چہروں کو وقتی مسکراھٹ دے سکتی ہے۔ پی سی بی اور انگلش کرکٹ ٹیم مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے سیلاب زدگان کی مدد میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید