ڈیمینشیا، بڑھاپے میں انسانی دماغ اور اعصاب کی کارکردگی کو متاثر کرنے والی ایک ایسی بیماری ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوتی جاتی ہے۔ یادداشت کا چلے جانا ڈیمینشیا کا سب سے عام پہلو ہے، جس میں بالخصوص حال ہی میں پیش آنے والے واقعات کو یاد کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس کی دیگر علامات میں انسان کے رویوں، موڈ اور شخصیت میں تبدیلی شامل ہے۔
متاثرہ شخص جانی پہچانی جگہوں پر کھو جاتا ہے اور گفتگو کے دوران دُرست الفاظ بھول جاتا ہے۔ کچھ افراد میں بات اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اُن سے یہ فیصلہ تک نہیں ہوپاتا کہ انھیں کچھ کھانا ہے یا پینا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ جوں جوں اس بیماری میں شدت آتی جاتی ہے، مریض کی ضروریات بھی بڑھ جاتی ہیں اور اسے ہر وقت دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈیمینشیا کے مریضوں کی دیکھ بھال کا سالانہ خرچ ایک ٹرلین ڈالر کے قریب ہے۔
تیزی سے پھیلتی بیماری
ایک برطانوی ادارے کی حال ہی میں ایک تحقیقی رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈیمینشیا کا مرض آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ہر 3سیکنڈ میں کسی نہ کسی شخص میں ڈیمینشیا کی تشخیص ہورہی ہے۔ کچھ امیر ممالک میں یہ سب سے زیادہ جان لیوا بیماری بن چکی ہے اور اس کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 5 کروڑ افراد ڈیمینشیا کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس میں آنے والے وقتوں میں تیزی سے اضافے کا امکان ہے۔ اندازہ ہے کہ2050ء تک ڈیمینشیا سے متاثرہ افراد کی تعداد 13کروڑ تک پہنچ جائے گی۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت کے مطابق، 2000ء کے بعد سے ڈیمینشیا سے اموات کی تعداد دُگنی ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی مجموعی اموات کی یہ پانچویں بڑی وجہ ہے۔
ڈیمینشیاکی وجوہات
ماہرین کے مطابق، جس طرح ڈیمینشیا کا ابھی تک علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے، اسی طرح اس کی وجوہات بھی نامعلوم ہیں۔ اس حوالے سے ایڈنبرا یونیورسٹی کی پروفیسر تارا سپائرز جونز کا کہنا ہے،’’ہمیں نہیں معلوم نیورون مرتے کیوں ہیں، ہمیں ان کے مرنے کی اصل وجہ معلوم نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دماغ میں جمع ہونے والا کون سا پروٹین خطرناک ہے، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ جمع ہی کیوں ہوتا ہے، وہ جہاں جمع ہوتا ہے وہیں کیوں ہوتا ہے، دماغ میں پھیلتا کیوں ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔
احتیاطی اقدامات
ڈیمینشیا سے بچنے کے لیے کوئی حتمی حفاظتی اقدامات تو نہیں ہیں، لیکن اب تک کی محدود معلومات کی روشنی میں ماہرین کچھ تجاویز ضرور دیتے ہیں، جن کی مدد سے ڈیمینشیا کے امکانات کی شرح کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، بہتر طرزِ زندگی سے ڈیمینشیا کے تین میں سے ایک کیس کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیےجو تبدیلیاں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، ان میں وسط عمر میں قوت سماعت میں کمی کا علاج، زیادہ دیر تک تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھنا، تمباکونوشی سے اجتناب، ڈپریشن کا بروقت علاج، جسمانی طور پر متحرک رہنا، سماجی طور پر تنہائی سے بچنا، موٹاپے، بلڈ پریشر اور ٹائپ 2ذیابطیس سے بچنا شامل ہیں۔
یہ تجاویز محدودعمومی معلومات کی بنیاد پر اخذ کی گئی ہیں اور یہ معلوم نہیں کہ یہ اقدامات دماغ کو کس طرح محفوظ رکھتے ہیں۔ بہتر طرزِ زندگی واقعی ڈیمینشیا کو روکنے کا باعث بنتی ہےیا پھر دماغ کو اس سے نمٹنے کے لیے تیار کرتی ہے، مثلاً خلیوں کے درمیان بہتر روابط پیدا ہوتے ہیں اور دماغی نظام اتنا لچکدار بن جاتا ہے کہ جب نیورونز مرنا شروع ہوتے ہیں تو اس عمل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں صورتِ حال
عالمی ادارہ صحت کے 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں ہر سال تقریباً1550 افراد ڈیمینشیا اور الزائمر کی بیماری سے جڑے اسباب کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تعداد پاکستان میں عام شہریوں کی کل سالانہ اموات کا تقریباً 1.3فیصد بنتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے برعکس، ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ڈیمینشیا اور الزائمر کی بیماری کے باعث اموات کی شرح اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
کیا علاج دریافت ہوسکے گا؟
میڈیکل سائنس میں تحقیق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ 1980ء کی دہائی میں ایڈز کو جان لیوا مرض سمجھا جاتا تھا کہ اس سے موت یقینی ہے، تاہم بعد میں اس پر وسیع پیمانے پر تحقیق اور رقم خرچ کی گئی، جس کے نتیجے میں اب لوگ اینٹی وائرل ادویات کی مدد سے تقریباً معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ اسی طرح اب دنیا کی توجہ ڈیمینشیا کے مرض کی جانب مبذول ہونے لگی ہے۔
ماہرین کے مطابق، اس برس کچھ ٹرائل مکمل ہونے والے ہیں، جن سے اگلے ایک یا دو برسوں میں بہتر نتائج کی امید کی جا رہی ہے۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگلے 10برسوں میں ہم پہلی بار ڈیمینشیا کا باقاعدہ علاج دیکھیں گے، جو مکمل علاج تو نہیں ہو گا،تاہم اس سے یہ بیماری ہونے میں کچھ وقت ضرور لگے گا اور مریض کی حالت تیزی سے خراب نہیں ہو گی۔