بسا اوقات اردو میں مستعمل بعض عربی الفاظ و مرکبات کا صحیح تلفظ اور مفہوم معلوم نہ ہونے کی وجہ سے الجھن ہوتی ہے اور استعمال میں بھی غلطی کا امکان رہتا ہے۔ اردو میں کثرت سے استعمال ہونے والے چند ایسے مرکبات کا ذکر مقصود ہے۔
٭…دنیا و ما فِیہا
دنیا کا لفظ تواردو میں اسی مفہوم میں رائج ہے جو عربی میں ہے۔ اس مرکب میں ’’و‘‘ دراصل واوِ عطف ہے اور یہ ’’اور‘‘ کے معنی میں ہے۔ عربی لفظ ’’ما‘‘مختلف معنوں میں آتا ہے۔ لیکن اس ترکیب میں ’’ما‘‘ بطور حرفِ موصول آیا ہے اور اس کا مفہوم یہاں ‘‘جو ‘‘ یا ’’جو کچھ ‘‘ ہے۔’’فی ‘‘کا مطلب ہے ’’میں ‘‘یا ’’اندر‘‘۔ ’’ہا ‘‘ ضمیر ِ متصل (یعنی مِلی ہوئی ضمیر) ہے اور اس کا مفہوم ہے’’ اس (مونث کے لیے، کیونکہ لفظ دنیا مونث ہے) ‘‘۔’’ فی‘‘ اور’’ ہا‘‘ دو الگ لفظ ہیں لیکن ان کو ملا کر فیہا لکھا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہے اس میں یا اس کے اندر ۔
گویا ’’ دنیا و ما فیہا‘‘ کا لفظی مفہوم ہے : دنیا اور جو کچھ اس میں ہے۔ مراد یہ کہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں، ہر چیز ۔مثلاً: وہ جب کتاب پڑھتے ہیں تو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں، یعنی ساری توجہ کتاب پر ہوتی ہے اور دنیا کی ہر چیز سے بے خبر اور لاتعلق ہوجاتے ہیں۔
٭…لا اُبالی
اردو میں لاابالی سے مراد ہے وہ شخص جو بے پروا ہو، بے فکر ہو۔مثلاً یوں کہتے ہیں کہ’’ فلاں شخص کسی بات کی پروا نہیں کرتا، وہ بڑا لاابالی ہے۔‘‘ لیکن اس ترکیب میں لفظ ’’اُبال ‘‘ اردو کا نہیں ہے بلکہ اس عربی فقرے کے لفظی معنی ہیں ’’میں پروا نہیں کرتا‘‘ ۔ فیلن نے اپنی اردو بہ انگریزی لغت میں اسے ’’لائوبالی‘‘ لکھا ہے جو غلط ہے۔ اس کا درست املا لا اُبالی ہی ہے۔لفظی معنی اپنی جگہ، لیکن اب اردو میں لاابالی کا مطلب ہے: بے فکرا، لاپروا۔
٭…لَن تَرانی
اس میں لام (ل)پر بھی زبر ہے اور تے (ت)پر بھی۔ عربی میں ’’لن ‘‘کے معنی ہیں :ہرگز نہیں۔ اس عربی فقرے کا لفظی مفہوم ہے : تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا۔یہ وہ الفاظ ہیں جواللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب موسیٰ علیہ السلام نے دیدار کی درخواست کی۔ لیکن اردو میںلن ترانی کی ترکیب شیخی ، ڈینگ ،تعلی اور خود ستائی کے معنوں میں رائج ہے۔ اسی سے محاورہ بنالن ترانی کرنا، یعنی ڈینگ مارنا، شیخی بگھارنا، بڑائی کی باتیں کرنا۔ باغ و بہار میں ایک جملہ ہے : ’’ایک اور لن ترانی والا ڈینگ مارنے لگا‘‘۔
لن ترانی عربی کا فقرہ ہے لیکن اردو والوں نے اس کی بھی جمع بنالی اور کہتے ہیں ’’زیادہ لن ترانیاں مت کرو‘‘۔ یہ ہے اردو کا تصرف، جواردو کی حد تک بالکل درست ہے۔
٭…ماحَصَل
جیسا کہ اوپر ’’دنیا و ما فیہا ‘‘ کے ضمن میں ذکر ہوا، عربی لفظ ’’ما‘‘مختلف معنوں میں آتا ہے۔ اس ترکیب ’’ماحصل ‘‘میں بھی ’’ما‘‘ بطور حرفِ موصول آیا ہے اور اس کا مفہوم یہاں ‘‘جو ‘‘ یا ’’جو کچھ ‘‘ ہے۔ مصباح اللغات کے مطابق حَصَل کے معنی ہیں حاصل ہوا یا باقی رہا۔ گویا ما حصل کا مطلب ہے: جو کچھ حاصل ہوا۔
اسی لیے’’ ماحصل ‘‘ اردو میں خلاصہ، نتیجہ، حاصلِ کلام یا حاصلِ بحث کے مفہوم میں رائج ہے۔ جب کسی مقالے یا مضمون میں بحث کو سمیٹ کر نتیجہ یا خلاصہ پیش کرنا ہو تو اردو میں کہتے ہیں ’’ماحصل یہ کہ ۔۔۔‘‘۔ یعنی گفتگو یا بحث سے یہ نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔
نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی