ایک اچھا استاد وہ ہے جو علم کو عمل میں ڈھال کر طلبہ کیلئے نمونہ عمل بن جائے۔ جب کوئی استاد علم اور عمل کا جامع بن جاتا ہے تو پھر وہ خود ایک چھوٹی سی تہذیب بن جاتا ہے ، جیتی جاگتی تہذیب۔ پھر اس کے اثرات نسل درنسل منتقل ہوتے ہیں۔ استاد کے کردار کو مستحکم کئے بغیر تعلیم و تربیت کے عمل کو موثر نہیں بنایا جاسکتا۔
آج کے تعلیمی ادارے و مراکز بچوں کو انسان بنانے کے بجائے انہیں ایک مشین بنا رہے ہیں۔ اساتذہ کو اچھے اخلاق و اطوار کا آئینہ دار ہونا چاہیے تاکہ وہ اچھے طلبا پیدا کر سکیں ان پر لازم ہے کہ وہ طلبا میں اچھائیوں اور برائیوں میں امتیاز کرنے اور ان کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ استاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک مختصر ساواقعہ نذرِ قارئین ہے
ایک استاد نے کلاس کو متحرک کرنے , جوش اور ولولہ سے معمور کرنے کے لیے کلاس میں ایک طالب علم سے پوچھا آپ کی عمر کتنی ہے ؟
طالب علم نے جواب دیا : انیس سال
استاد نے پھر سوال کیا : محمد قاسم نے جب سندھ کو فتح کیا تھا اس کی عمر کتنی تھی؟
طالب علم : سترہ سال
استاد : سکندر اعظم جب یونان کا بادشاہ بنا تو اس کی عمر کتنی تھی؟
طالب علم : تقریبا انیس سال
استاد : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹے نبی مسیلمہ بن کذاب کی سرکوبی کے لیے جو لشکر ترتیب دیا تھا اس کے سپہ سالار اسامہ بن زید کی عمر کیا تھی ؟
طالب علم : سترہ یا انیس سال
استاد نے کلاس کی جانب دیکھا اور سوال کیا ، تمھاری عمر کتنی ہے اور تم نے اب تک کیا کیا ہے؟
طالب علم نے اعتماد سے جواب دیا، استاد محترم محمد بن قاسم کی عسکری تربیت حجاج بن یوسف جیسے سپہ سالار نے کی تھی۔ سکندر اعظم ارسطو فلاسفی کا شاگرد تھااور اسامہ بن زید نے خیرالبشر حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ تربیت پائی تھی۔
محترم مجھے بھی اچھے استاد دے دیں پھر دیکھیں، درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔