سندھ میں جہاں ایک جانب جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے، تو وہیں دوسری جانب اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھنے سے ایک بار پھر ڈاکو راج سر اٹھانے لگا ہے۔ اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتیں، کیا پولیس کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے؟ رواں ماہ سکھر شکارپور اور کشمور پولیس کی جانب سے اغوا کیے گئے ایک بچے تین خواتین سمیت 15 سے زائد افراد کو بازیاب کرایا گیا، جن میں زیادہ تعداد ضلع کشمور کی ہے۔ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال میں شکارپور اور کشمور پولیس نے جو کام یاب آپریشن کیے اور درجنوں ڈاکو جن میں بدنام زمانہ خطرناک ڈاکو شامل تھے۔
مارے گئے ان کام یاب آپریشن کے اثرات بھی اب زائل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ڈاکوؤں کی جانب سے جدید اسلحے کی نمائش اور اغوا کیے گئے مغویوں کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ڈاکوؤں کی مختلف کچے کے علاقوں میں بنائی گئی اکثروڈیوز جو سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آتی ہیں۔ ان میں ڈاکو جدید اسلحے کی نمائش کرتے ہیں۔
مغویوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں یا مغویوں کی رہائی کے عوض اپنے گھر برادری کے افراد یا دیگر ساتھیوں سہولت کاروں جو پولیس کی حراست میں ہوتے ہیں، ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عام طور پر اغوا کی وارداتیں تاوان کے لیے کی جاتی ہیں، لیکن سکھر میں ایک خاتون کی دو بچوں سمیت اغواء کی ایسی واردات سامنے آئی کہ جس کے باعث ایک قبیلے کے دو گروپوں میں بڑے تصادم کا خطرہ تھا اور ایسی صورت حال میں حالات کو کنٹرول رکھنا، مغویوں کی بازیابی پولیس کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تھا اور اس سنگین نوعیت کے معاملے میں آپریشن کی مکمل کمانڈ ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک نے خود سنبھالی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سکھر کے تعلقہ صالح پٹ کے صحرائی علاقے میں کارروائی کرکے مغوی خاتون کو دو بچوں سمیت باحفاظت بازیاب کرالیا۔
ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک نے اپنے دفتر میں میڈیا کودوران واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سکھر پولیس نے صالح پٹ کے دور دراز صحرائی علاقے میں کارروائی کرکے دس روز قبل سکھر کے پولیس اسٹیشن مبارک پور کی حدود سے اغوا ہونے والی خاتون کو اس کے دو بچوں سمیت باحفاظت بازیاب کرالیا ہے۔ کارروائی کے دوران مرکزی ملزم کو ساتھی سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ چند روز قبل مبارکپور تھانے کی حدود سے ملزم امین مھر نے اپنے ساتھیوں سمیت میر محمد مہر کے گھر پر حملہ کردیا تھا۔ حملے میں علی نواز مہر سمیت سات افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اس دوران ملزمان نے علی نواز کی بیوی کو دو بچوں سمیت اغوا کرلیا تھا ۔ واقعے کا مقدمہ مبارک پور تھانے پر مرکزی ملزم اور اس کے ساتھیوں پر میر محمد مھر کی مدعیت میں درج کیا گیا اوراغوا کی اس واردات کے بعد علاقے میں ماحول انتہائی کشیدہ اور دونوں گروہوں میں خونی تصادم کا خطرہ موجود تھا، اس سنگین صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کو علاقے میں تعینات اور ہائی الرٹ رہتے ہوئے مغوی خاتون کی بچوں سمیت باحفاظت بازیابی کے لیے ایس ایس پی سکھر نے ایک پولیس پارٹی جس میں پولیس اہل کاروں کے ساتھ کمانڈوز اور ٹیکنکل ماہرین بھی شامل تھے، تشکیل دی ۔ جس کی کمانڈ ایس ایس پی نے خود کی۔
پولیس پارٹی مسلسل مغویوں کی باحفاظت بازیابی کے لیے کوششیں کرتی رہی اور آخر دس روز بعد پولیس نے ٹیکنیکل بنیادوں پر مغویوں کی ایک صحرائی علاقے میں موجودگی کا سراغ لگالیا ، جس کے بعد پولیس کے لیے یہ بھی کڑا امتحان تھا کہ مغوی خاتون اور اس کے بچوں کو اس کارروائی میں کسی بھی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچے اور انہیں باحفاظت بازیاب کرالیا جائے۔ ان تمام پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس نے آخر کار ایک منظم حکمت عملی کے تحت صالح پٹ کے صحرائی علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے ایک ویران جھونپڑی سے مغوی خاتون مسمات زبیدہ کو اس کی بیٹی زلیخاں اور بیٹے کالو سمیت باحفاظت بازیاب کروالیا۔
کارروائی کے دوران ملزم امین مہر کو ساتھی سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ ایس ایس پی سکھر کے مطابق ملزم نے مغوی خاتون کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا ہوا تھا۔ بازیابی اور گرفتاری کے بعد دوران تفتیش ملزم نے اعتراف کیا کہ اس نے رشتے کے تنازعے پر علی نواز کے گھر پر حملہ کیا تھا، جس میں علی نواز اور اس کے بھائی سمیت سات افراد زخمی ہوئے تھے اور اس دوران خاتون کو دو بچوں سمیت اغوا کیا گیا، بازیاب ہونے والی مغوی خاتون نے میڈیا کو بتایا کہ ملزم نے ان کے گھر پر حملہ کر کے اس کے شوہر اور دیور سمیت سات افراد کو زخمی کرنے کے بعد اسے بیٹی اور بیٹے سمیت اغوا کیا اور اغوا کے بعد ملزم نے انہیں صحرائی علاقے میں زنجیروں میں باندھ کر رکھا ہوا تھا۔
صحرا میں انہیں کڑوا پانی پلایا جاتا تھا۔ ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک کا کہنا تھا کہ واقعے کا مقدمہ مبارکپور تھانے پر 13 ستمبر کو مرکزی ملزم امین سمیت 20 افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد ملزمان کی عدم گرفتاری اور درست سمت میں تفتیش نہ کرنے پرایس ایچ او تھانہ مبارکپور کو غفلت اور کوتاہی برتنے پر معطل کیا گیا ہے، جب کہ پولیس کی بہتر حکمت عملی اور خاتون کی بچوں سمیت بازیابی سے علاقے میں جاری کشیدگی میں بڑی حد تک کمی آئی ہے، اس کام یاب کارروائی پر ڈی آئی جی سکھر، جو اس تمام معاملے اور پولیس آپریشن کی نگرانی کررہے تھے، نے ایس ایس پی سکھر اور ان کی ٹیم کو شاباش دی اور پولیس پارٹی کو تعریفی اسناد دینے کا اعلان کیا۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے بھی ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک اور ان کی ٹیم کی کام یاب کارروائی کو سراہا گیا۔ دوسری جانب سکھر پولیس نے کچے کے علاقے میں دو مختلف کارروائیوں کے دوران ایک 9 سالہ معصوم بچے دو تاجروں سمیت تین افراد کو بازیاب کرالیا، جنہیں ڈاکوؤں نے بھاری تاوان کے لیے اغوا کیا تھا، ترجمان پولیس میر بلال لغاری کے مطابق سکھر پولیس نے باگڑجی کچے کے علاقے میں مغوی بچے کی موجودگی کی اطلاع پر بچے کی بازیابی کے لیے کارروائی کی، تو ڈاکوؤں کی جانب سے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی گئی۔
پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے کے دوران ڈاکو اپنا گھیرا تنگ محسوس کرتے ہوئے مغوی بچے کو چھوڑ کر فرار ہوگئے، مغوی 9 سالہ معصوم عزیر انڈھڑ کو پندرہ روز قبل پنوعاقل کے علاقے سے اغوا کیا گیا تھا اور ڈاکوؤں کی جانب سے مغوی بچے کی رہائی کے لیے بھاری تاوان طلب کیا جارہا تھا۔ 9 سالہ معصوم بچے کی بازیابی کے لیے جاری آپریشن کی نگرانی ایس ایس پی سکھر نے کی کچے کے خطرناک علاقے میں مغوی بچے کی باحفاظت بازیابی کو یقینی بنانا بھی پولیس کے لئیے کڑا امتحان تھا، کیوں کہ کارروائی اور مقابلے کے دوران بچے کو کسی بھی ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنا ضروری تھا، اس لیے اس آپریشن کی سربراہی انتہائی تجربہ کار پولیس آفیسر ڈی ایس پی سی آئی اے عبدالستار پھل کے سپرد کی گئی، جس نے اپنی ٹیم کے ساتھ بچے کی بازیابی کے لیے آپریشن پلان تشکیل دیا اور فیصلہ کیا گیا کہ رات کی تاریکی میں آپریشن کیا جائے گا۔ اس آپریشن مغوی بچے کی باحفاظت بازیابی کی صورت میں پولیس کو بڑی کام یابی ملی۔
ڈی ایس پی سی آئی اے عبدالستار پھل ایک تجربہ کار سینئر پولیس آفیسر ہیں، جو مختلف ایس ایس پیز کے ساتھ کچے کے علاقوں میں آپریشن کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پولیس کے اس کام یاب آپریشن کے بعد ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سکھر کی جانب سے آپریشن میں حصہ لینے والی پولیس پارٹی کے لیے تعریفی اسناد دینے کا اعلان کیا گیا، جب کہ بچے کی بازیابی کی خوشی میں 9 سالہ عزیز اللہ کے گھر میں جشن کا سماں تھا۔ عزیز و اقارب اور علاقے کے لوگ بھی خوشیوں میں شامل تھے۔
ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلائی گئیں، پولیس پارٹی اور ایس ایس پی سکھر کو پھولوں اور نوٹوں کے ہار پہنائے گئے۔ بچے کی بازیابی پر جہاں پولیس افسران اور آپریشنل ٹیم کے چہروں پر خوشی عیاں تھی، وہیں بچے کے اہل خانہ کی خوشی بھی دیدنی تھی۔ پولیس کی حقیقت میں معصوم بچے کی بازیابی ایک بڑی کام یابی تھی۔ سکھر پولیس نے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کی سرکوبی کے لیے متعدد آپریشن کیے ہیں۔