• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
جس قدر بھی دل ملول، رنج و غم اور دکھی ہو کر یہ کالم عورت کی معصومیت، سادگی اور عاجزی و ہمدردی پر لکھ سکتا ہے تو کاش اسی طرز پر لکھا جائے تو حق ادا ہوگا مگر عورت کی عظمت اس قدر بام عروج پر ہے کہ یہ ناتواں قلم حق ادا نہ کرسکے گا، خلش اور کوتاہی کا احتمال رہے گا۔ آج کل کے زمانے میں جس قدر عورت کی زندگی کٹھن، سخت، تکلیف دہ، دشوار، مصیبت اور مشکل ہے شاید مرد کی زندگی ایسے مراحل سے گزرتی ہو۔ مرد کو صرف روزگار اور اس سے متعلق اخراجات کی فکر ہے مگر عورت مرد کے موڈ سے لے کر اپنے غیر تو کیا زمانے بھر کے موڈ کو برداشت اور رواداری سے لے کر چلتی ہے۔ مردوں کے علت و عیوب زمانے بھر سے چھپا کر اپنے اندر رکھتی ہے ایسی حالت میں وہ کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے کبھی اپنے ضمیر سے لڑتی ہے، کبھی اپنے حالات اور کبھی زمانے کی کج ادائیوں سے لڑ کر بے دم ہو جاتی ہے۔ آج کے زمانے میں کسی بھی تباہی کا ذمہ دار گھریلو ہوں یا معاشرتی خواتین کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے اور آج کے زمانے میں عورت گھر اور معاشرہ بنانے میں ہر طرح سے معاون ثابت ہوتی ہے اور ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عورت کو وہ مقام حاصل ہو جاتا جس کا وہ استحقاق رکھتی ہے مگر ایسا تو شاید قیامت تک ممکن نہ ہوسکے۔ زمانے کی ترقی برق رفتاری سے بڑھتی جا رہی ہے مگر عورت کیلئے آج بھی وہی غلامی بھری زندگی کی مثالیں کھڑی ہیں جس کا اطلاق مرد آج بھی مردانگی کے طور پر یہ جملے اپنے منہ پر رکھتا ہے کہ ’’عورت کو سبھی کچھ دو مگر اس کے پیروں کے نیچے کی زمین ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھو‘‘۔ دوسری مثال بھی عورت کو غلام رکھنے سے متعلق ہے کہ ’’عورت اور گھوڑا ران تلے‘‘۔ یعنی عورت اور گھوڑا جب تک قابو میں رہیں تو اپنے ہیں۔ زمانے سے انسانیت کا خاتمہ اتنا نہیں ہوا جتنا کہ عورت کی اہمیت کا خاتمہ ہوا ہے زمانے کے انداز کی کڑیاں جاہلیت کے دور سے آج بھی جا ملتی ہیں۔ اقبال نے جو کچھ عورت کیلئے عظیم الفاظ کہے کہ:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز درُوں
عورت کیلئے اب کائنات میں رنگ بھرنے والی بات ہی کوئی نہیں سمجھتا اب تک تو وہ اپنا رنگ جما چکی ہوتی مگر کسی نے جمنے نہ دیا، وہ اپنا سکہ بٹھا چکی ہوتی لیکن لاکھ قربانیوں کے باوجود عورت کی اہمیت دریا میں لگی کائی جیسی ہے۔ وہ اپنے اعتماد رکھے تو خود سر ہے، وہ اپنے حق کیلئے بولے تو باغی ہے، وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو تو زمین کھینچ دی جاتی ہے یا پھر اس سے سبھی کچھ چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عورت مرد کے علت و عیوب چھپا کر بھی اس کے دل میں مقام نہیں بنا سکتی جب کہ عورت مرد سے پھر بھی اچھائی کی اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی تمنائی رہتی ہے، وہ کون لوگ ہیں جو عورت کو صرف عشقیہ الفاظ تک رکھتے ہیں اس سے آگے کی اہمیت صرف وہی الفاظ ہیں جو ہتھوڑی کی ضرب کی مانند بولے جاتے ہیں کہ ’’عورت کی کیا اپنی حیثیت ہے، وہ تو پیدا بھی مرد کی پسلی سے ہوئی ہے‘‘۔ عورت کی ہستی وہ کہ قربانیوں کے بعد بھی اپنی ذات قربان کرنے کو تیار رہتی ہے۔ آپ آج کل سارہ انعام اور انجلینا جولی کو خوب دیکھ اور سن رہے ہیں۔ سارہ کیلئے تو دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ جو کس قدر اعتماد سے معاشرے میں مقام بھی بنا پائی وہ بھی اپنے بل بوتے پر، اپنی محنت سے اعلیٰ تعلیم اور اچھی جاب کے ساتھ سنہرے مستقبل کو محفوظ بنا پائی تھی۔ نعرے تو ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں کہ ’’عورت کو تعلیم دلاؤ، انہیں بااختیار بناؤ‘‘۔ یہ سب عورت کرلیتی ہے اپنا مستقبل بھی اور دوسروں کا بھی مستقبل بہتر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ باشعور ہوجاتی ہے شوہر کو محبت سے سنوارنے کا جذبہ رکھتی ہے، نیک نیتی سے اس کی زندگی میں داخل ہوتی ہے، اس کی برائیوں کو بھی اچھائیوں میں بدلنا چاہتی ہے مگر وہ بے چاری کو ہیوی ویٹ ڈمبل سے کوٹ دیا جاتا ہے۔ ایسا تشدد کہ روح کانپ جائے۔ وہ اسی طرح ماری گئی جیسے ایک گندے نشئی نے اپنی سادہ، غیر پڑھی لکھی بیوی کو مرچ کوٹنے والے لوہے کے حمام دستے سے جس سے وہ مرچیں کوٹ رہی تھی، سے مار مار کر زخموں سے چور کردیا تھا۔ نشہ تو انجلینا جولی کے شوہر کی طبیعت کا بھی خاصا ہے وہ بھی نشے کی حالت میں اپنے بچوں پر تشدد اور گالی گلوچ اور انسانیت سوز تشدد کرتا تھا تبھی پھر انجلینا نے اس سے دوری اختیار کرلی ورنہ جانے وہاں بھی کیا ہوتا۔ عورت کہیں کی بھی ہے مگر قسمت دیکھئے کہ کسی بھی نشئی سے پالا پڑ جائے تو چاہے وہ مرچ کوٹنے والی غریب و سادہ ہو، سارہ انعام جیسی بااختیار و سنہرے مستقبل والی ہو یا پھر انجلینا جولی ہو، ان کے ذاتی مسائل اور شوہر سے تشدد برداشت کرنے کے انداز ایک ہی جیسے ہیں۔ سارہ عزم کئے تھی کہ میں نشے میں ڈوبے شخص کے اچھے دل کو مزید سنوار دوں گی کہ ’’ہہ دل کا اچھا ہے‘‘ اتنے اچھے دل کا کہ جہاں لالچ و ہوس بھری تھی، جس کی نظر اس کے پیسے پر تھی۔ سارہ انعام کی سوچ کو سلام ہے۔ سلام تو انجلینا جولی کو بھی ہے کہ وہ بھی انسانیت کی خدمت کو مقصد حیات بنا کر نہایت دکھی لوگوں میں جاکر ان کا درد بانٹتی ہے۔ جس قدر درد دل انجلینا رکھتی ہے وہ کوئی عیش پرست بے فکر عورت نہیں کرسکتی کہ ہالی ووڈ کی ہیروئن اور نہایت گندے اور مٹی دھول گارے میں اٹے لوگوں کو گلے لگا رہی ہے۔ انہیں سینے سے لگا کر ان کے دکھ آدھے کر رہی ہے وہ جو ہم پاکستانی نہ کر سکیں۔ سلام ہے ہر عورت کو جو اپنے دکھوں میں بہادری سے جی رہی ہے۔
یورپ سے سے مزید