• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی قوم نہایت خوش وجذبہ سے ہر سال ’’یوم دفاع‘‘ مناتی ہے۔ یہ دِن ہمیں تاریخ کے اُس گوشہ میں لے جاتا ہے، جب رات کی تاریکی میں دشمن نے شبِ خون مارا، لیکن ہماری بہادر افواج نے نہ صرف ان کے حملہ کوپسپا کیا، بلکہ دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔ 65ء کی جنگ میں پاک فوج نہایت بہادری سے لڑی اورارض ِ پاکستان کی سلامتی کو یقنی بنایا ، اس جنگ میں ہماری افواج محاذ پر دشمن کے خلاف سینہ سپر تھی، جب کہ پاکستان کا ہرشہری مشکل کے اُس کٹھن وقت میں پاک فوج کے ساتھ کھڑا تھا۔ مصور اپنے رنگ وبرش کے ذریعہ، شاعراپنی شاعری کے ذریعے، گلوکار اپنی آواز سے، موسیقار اپنی موسیقی کی دُھنوں سے، فن کار اپنے فن سے، صحافی اپنے قلم سے، یعنی ہر شخص اپنی اپنی جگہ اپنا حصہ دفاعِ وطن کے لیے ڈالتا رہا۔

اس جنگ کا اعلان جب ریڈیو پر لوگوں نے سُنا تو ایک ایسا بے مثال جذبہ ٔ حُب الوطنی لوگوں کے اندر جاگا، جو بیان سے باہر ہے۔ ریڈیو پاکستان نے اس حوالے سے لازوال کردارادا کیا۔ لاہورمیں احمد ندیم قاسمی کے گھر فون کرکے درخواست کی گئی کہ اس حوالے سے کچھ تحریر کردیں۔ انہوں نے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ’’خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام،‘‘ لکھ کر دے دیا۔ ریڈیو پاکستان نے 65ء کی جنگ میں ایسا کام کیا، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ 65ء کی جنگ کا ذِکر ہو اور ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کے ملی گیتوں کا تذکرہ نہ ہو، یہ تو ممکن نہیں۔ میڈم نے ایسے گیت ریکارڈ کروائے، جو محاذ پہ دشمن سے نبرد آزما سپاہی کے خون کو گرما دیتے تھے اور جوش وجذبہ کو بڑھا وا دیتے تھے۔

ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کے گائے ملی اورقومی گیت آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ ہم نے میڈم کا ایک انٹرویو ٹی وی پر دیکھا تھا، جس میں انہوں نے اس حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب جنگ چھڑی، تو وہ گھبرا گئیں اور ٹرک منگوا لیا کہ بچوں سمیت سامان سمیٹ کر کہیں محفوظ مقام پر منتقل ہو جائیں گے،مگر پھر انہوں نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا اور مصیبت کی اس گھڑی میں اپنی آواز کے ذریعے دشمن کے خلاف جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان فون کرکے کہا کہ ’’میں نورجہاں بات کررہی ہوں‘‘!!۔ ٹیلی فون آپریٹر کو محسوس ہوا، جیسے اُسے مغالطہ ہوا ہے، اتنی بڑی سپراسٹار بھلا خود کیوں فون کر لے گی۔ اس نے ریسور رکھ دیا۔

ملکہ ٔترنم نورجہاں نے دوبارہ ٹیلی فون کیا اور کہا کہ میں نورجہاں بول رہی ہُوں۔ اس دور میں ٹیلی فون پرکالیں جدید انداز کی نہیں تھیں، نہ سسٹم اتنا ایڈوانس تھا۔ آپریٹر کو لگا کہ کوئی نورجہاں بن کر فون کررہا ہے، اُس نے کہاکہ بی بی کیوں مذاق کرتی ہو، آپ نورجہاں نہیں ہوسکتیں، وہ بھلا خود کیوں فن کرے گی۔ 

فون پھر رکھ دیا گیا، ملکہ ٔ ترنم نورجہاں جب یہ واقعہ ٹی وی پر سُنا رہی تھیں، تو ان کا چہرہ ایسے چمک رہا تھا کہ بس!! ویسے بھی ان کے تاثرات ہمیشہ سے متاثرکن رہے ہیں۔ 65ء کی جنگ میں اپنے گائے ترانوں کا احوال بتاتے ہوئے شدتِ جذبات ان کے لہجے سے عیاں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح کئی بار ٹیلی فون کرنے کے بعد وہ ریڈیو پاکستان پہنچیں اور پھر ایسے عظیم شاعروں و موسیقاروں کے ساتھ مل کر وہ سدابہار ترانے گائے کہ آج بھی یوم ِ دفاع کی کوئی تقریب ان گیتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

یہ حقیقت ہے کہ فن کار ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور وہ بہت حساس بھی ہوتے ہیں، اسی لیے معاشرے کا درد دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محسوس کرسکتے ہیں۔ میڈیا پرآکر اپنے فن کے ذریعے فن کار ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں کہ جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ میڈیا براہ راست لوگوں کے ذہن و دل پہ اثر ڈالتا ہے، جو بات احسن انداز سے میڈیا کے ذریعہ کہی جائے ، وہ اہمیت رکھتی ہے۔ 

ڈرامے ہوں یا ٹاک شوز، موسیقی کے پروگرام ہوں یا لائیو ٹرانسمیشن، میڈیا نے اپنا کردار بہ خوبی نبھایا ہے۔ پہلے ریڈیو کا زمانہ تھا، توریڈیو ہی توجہ کا مرکز تھا۔ پھرٹیلی ویژن آیا تو سب اس کی طرف ہی متوجہ ہوگئے۔ پہلے صرف ایک سرکاری چینل تھا اوراب متعدد چینلز ہیں اور ذرائع ابلاغ پھیلتے جا رہے ہیں۔ شعور و آگہی بڑھتی جارہی ہے اور اب تو سوشل میڈیا زیادہ مقبول ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں ملک و قوم کی فلاح وبہبود اور خدمت کے مواقع زیادہ میسر ہیں۔

افواجِ پاکستان کی قربانیوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے میڈیا نے اہم کردارادا کیا۔ ٹیلی ویژن پرڈراموں کے ذریعے شہداء کو خراج ِ عقیدت پیش کیا گیا۔ کئی برس قبل ٹیلی ویژن پر’’نشانِ حیدر‘‘ کے ٹائٹل سے مختلف انفرادی ڈرامے پیش کیے گئے تھے، جن میں ہماری بہادر قوم کے ان عظیم سپوتوں کو جنہوں نے وطن کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا تھا اور جنہیں ان کی جرأت و دلیری اور بے مثال بہادری کے لیے نشانِ حیدر سے نوازا گیا تھا۔ ان کی قربانیوں اور خدمات کو ڈرامے کے ذریعے اسکرین پر پیش کرکے شان دار انداز میں اجاگر کیا گیا۔

آج بھی مختلف چینلز پر پاک فوج کی عظیم کارکردگی اورخدمات کو ڈرامے کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے، ان ٹی وی ڈراموں سے قوم اپنے قابل ِ فخر فوجیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ پاکستانی قوم ہر وقت پاک فوج کے شانہ بشانہ دشمن سے مقابلہ کے لیے تیارہے۔ زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ ہمیشہ ان کی قربانیوں کو یاد رکھتی ہیں، اب جب کہ بہت سے نجی ٹی وی چینلز اور ریڈیو چینل اپنی نشریات میں افواج ِ پاکستان کو خراج ِ تحسین پیش کررہے ہیں۔ عوام کا ولولہ دیدنی ہے۔

اس برس 6ستمبر کی تقریبات اس طرح نہ منائی جاسکیں، جیساکہ ہرسال منائی جاتی رہی ہیں۔ مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے جو آفت آئی ہے، اس نے سب کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ سیلاب سے متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے، کھیت، فصلیں، مویشی، گھربار سب تباہ ہو گیا ہے۔ پانی کا بہائو قیمتی جانیں بہا لے گیا۔ اس صورتِ حال میں جب کہ قوم کو متحد ہوکر متاثرین کی مدد کرنا ہے، تو میڈیا کا کردار قابل ِ تحسین ہے۔ فنڈریزنگ، متاثرین کی امداد کے لیے خصوصی نشریات کا اہتمام ہو رہا ہے ۔ مخیر حضرات، مختلف فلاحی ادارے بھی فعال ہیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے بھی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے راشن اور دیگر اہم ضروریات کا انتظام کیا ہے۔ آج پوری قوم سیلاب متاثرین کی مدد کو تیارہے۔

65ء کی جنگ میں جیسا جوش وجذبہ عوام میں تھا، ویسا ہی جذبہ اور یکجہتی اس وقت بھی لوگوں میں سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کے لیے موجود ہے۔ خدا کرے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا جلد ازالہ ہوجائے اور یہ صورتِ حال جو خطرناک ہوگئی ہے، وہ صحیح ہو جائے۔ پاکستان بھر سے اور بیرون ممالک سے بھی امداد پہنچ رہی ہے، امید ہے اس مشکل سے قوم جلد ہی نکل جائے گی اور حالات پرقابو پالیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید