لندن (پی اے ) برطانیہ کی حکومت نے ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈائون پر گزشتہ روز ایران کےاعلیٰ سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کیا،ایران میں یہ مظاہرے ایک نوجوان خاتون ماہا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے ہیں جو اب پورے ملک میں پھیل گئے ہیں ۔رپورٹس کے مطابق سیکورٹی فورسز کی جانب سے عوام کی بے چینی کو دبانے کیلئے کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 133 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا کہ ایران میں ہونے والے تشدد کے واقعات واقعی انتہائی تکلیف دہ ہیں آج ہم نے ایرانی حکام کے سامنے اپنا موقف واضح کردیاہے کہ ایران اس بے چینی اور مظاہروں کو بیرونی عوامل کا نام دینے کے بجائے خود اپنے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرے اور عوام کی شکایات سنے ،انھوں نے کہا کہ ہم اپنے پارٹنرز کے ساتھ مل کر ایرانی حکام کو حقوق انسانی کی صریح خلاف ورزیوں سے روکنے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔ایران کے سپریم رہنما ان مظاہروں کو امریکہ اور اسرائیل کی کارستانی قرار دیتے ہیں ۔برطانوی حکام اور غیر ملکی سفارتکار وں کی روزانہ دفتر خارجہ میں ملاقاتیں ہوتی ہیں اس لئے ایک سینئر FCDO ڈائریکٹر کی جانب سے لندن میں ایران کے سفات خانے کے قائم مقام سربراہ کو بات چیت کیلئے طلب کئے جانے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہئے لیکن مہدی حسینی متین کی طلبی اس اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے کہ ان کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے ،برطانیہ ایران کو یہ بتانا چاہتاہے کہ مظاہرین کے خلاف مزید سخت کارروائی کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ وزیر خارجہ سے اس حوالے سے ایک بیان جاری کیاہے جبکہ وہائٹ ہائوس کے ترجمان ایران میں تشدد کے واقعات پر پریشانی کااظہار کیاہے اور کینیڈا نے ایرانی حکومت کے سینئر افراد پرپابندی عاید کردی ہے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ مغربی طاقتیں اس معاملے کو مزید بڑھنے سے روکنا چاہتی ہیں۔لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ برطانوی وزیر خارجہ سے ایرانی سفارتکار سے کیاکہا۔