اسلام آباد(جنگ رپورٹر) نیب (ترمیمی) آرڈیننس 2022 کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیب قانون میں موجودہ ترامیم میں سے بیشتر عمران حکومت نے ہی کی تھیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ایک بار پھر پچاس کروڑ سے کم کے کرپشن کیسز نیب کے دائرہ اختیار سے نکالنے کے معاملے پر سوال اٹھادیا، جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر مقننہ نے نیب قانون کو آسان بناد یا ہے تو اس سے بنیادی حقوق کیسے متاثر ہورہے ہیں؟ کیا نیب ترامیم عدالتی فیصلوں کی روشنی میں نہیں کی گئیں ؟ خواجہ حارث نے کہا کہ غلط تشریح کرکے ترامیم کی گئی ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو عدالت کے ایک سابق حکم کی روشنی میں نیب کی جانب سے 2000سے2021تک کی پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی کے مقدمات کی تفصیلات سے متعلق رپورٹ جمع کرائی گئی،جس کے مطابق مذکورہ عرصہ کے دوران نیب نے پلی بارگین کے ذریعے 65 ارب اوررضاکارانہ واپسی کے ذریعے 92ارب روپیہ وصول کیاہے ،درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث احمد نے اپنے سابق دلائل کو آگے برھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ حالیہ ترامیم کے بعد کرپشن کیسز میں پلی بارگین کے ملزمان کے مقدمات ہی ختم ہوجائیں گے، جب جرم ختم ہو جائے گا تو وہ رقم کی واپسی کے لیے بھی عدالت سے رجوع کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ قانون سازی سے جرم کیسے ختم ہوسکتا ہے؟صدر کو آئین کے تحت سزائیں معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن صدر بھی رحم کی اپیل میں سزا معاف کر سکتے ہیں ، جرم پھر بھی ختم نہیں ہوتا ہے ،انہوںنے کہا کہ پلی بارگین جرم کی بنیاد ہے، وہ ختم ہو جائے تو جرم کیسے برقرار رہے گا؟یہاں تو مقننہ نے عدالت کی جانب سے دی گئی کنوکشن (سزا)ختم کردی ، پلی بارگین اعتراف جرم ہوتا ہے جس کی سزا میں عدالت پیسے واپس کرنے کی منظوری دیتی ہے،فاضل وکیل نے کہا کہ ان ترامیم کے تحت جرم اور سزا دونوں ہی ختم ہوجائیں گے، جبکہ کابینہ اور دیگر فورمز کیساتھ وزرا ء اور معاونین خصوصی کو بھی استثنیٰ دے دیا گیا ہے،انہوںنے کہاکہ ترامیم کا اطلاق بیرون ملک اثاثوں پر بھی ہوگا،کرپشن کے ملزمان کو بچانے کیلئے ترامیم کے ذریعے پورا بندوبست کیا گیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پلی بارگین کا مطلب مجرم قراردینا نہیں ہے بلکہ یہ تصور کرنا ہے کہ جرم کا ارتکاب ہوا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تصور امریکہ اور برطانیہ سے لیا گیا ہے جہاں ریاست کا وقت اور وسائل بچانے کے لیے آسانی دی گئی ہے لیکن زیر غور ترامیم سے لگتا ہے 49 کروڑ تک کی بدعنوانی ٹھیک ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں موجود قوانین کی رُوسے باہمی رضامندی سے تصفیہ کی سہولت موجود ہے،قاتل کا مقتول کے ورثا ء سے راضی نامہ ہوجائے تو جرم ختم ہوجاتا ہے،انہوںنے سوال اٹھایا کہ جب قتل جیسے جرم میں کسی ملزم کے لئے یہ سہولت موجود ہے تو کسی اور جرم میں کیا قباحت ہے؟ جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ باہمی تصفیہ کا اطلاق ہر جرم میں نہیں ہوتاہے ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جرم ختم نہیں ہوتا معاملہ واپس ٹرائل کورٹ میں جاتا ہے، رضاکارانہ واپسی میں تو کنوکشن(سزا) بھی نہیں ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی چوری کرے اور پکڑے جانے پر چوری کامال واپس کرکے کہے کہ مجھے چھوڑ دیں؟فاضل وکیل نے کہا کہ ترامیم کے تحت ایمنسٹی اسکیم کے تحت حاصل رعایت کا معاملہ کوئی عدالت بھی نہیں دیکھ سکتی ہے،جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ایک پرائیویٹ آدمی کو بھی نیب قانون کے تحت قابل گرفت بنانا چاہتے ہیں؟،معاشرہ ایسا ہے کہ کاروباری افراد کو کئی جگہوں پر رشوت دینا پڑتی ہے؟کیا کاروباری افراد کو بزنس کرنے پر بھی سزا ملے گی؟انہوںنے کہاکہ اگران کی گرفت کریں گے تو وہ ملک سے ہی بھاگ جائیں گے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس طرح تو جو ایمنسٹی دی گئی وہ غیر یقینی ہوگی،ایمنسٹی اسکیم کا مقصد کالا دھن صاف کرنا ہوتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ایک بار پھر پچاس کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز نیب کے دائرہ اختیار سے نکالنے کے معاملے پر سوال اٹھایا تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پچاس کروڑ سے کم کی کرپشن پر نیب نہیں تو کسی اور قانون کا اطلاق ہوگا،جسٹس بندیال نے کہا کہ یہ جو معیار مقرر کیا گیا ہے اسے دیکھنے کی ضرورت ہے،فاضل وکیل نے کہا کہ عوامی عہدیدار کی منی لانڈرنگ میں سہولت کاری کرنے والا نیب ریڈار پر آئے گا، جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا نیب ترامیم عدالتی فیصلوں کی روشنی میں نہیں کی گئی ہیں تو ؟ فاضل وکیل نے بتایا کہ عدالتی فیصلوں کی غلط تشریح کرکے یہ ترامیم کی گئی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان ترامیم کے بعد اب تک کتنے مقدمات عدالتوں سے واپس ہوئے ہیں تو ایڈیشنل پراسیکیوٹر ممتاز یوسف نے بتایا کہ اس مقدمہ کے آغاز تک ان کی تعداد 219 تھی جو اب بڑھ کر 280 کے قریب ہوگئی ہے، تمام مقدمات نیب کو واپس آرہے ہیں، جن کا جائزہ کمیٹی لے گی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان افراد کو چھوٹ تو نہیں دی گئی ،قانون میں لکھا ہے کہ یہ مقدمات عدالت میں جائیں گے اور کچھ غلطی ہو تو کریمنل کیسز بنیں گے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان ترامیم کو گزشتہ حکومت نے ہی شروع کیا تھا؟،کیا کریں باتوں سے باتیں نکل رہی ہیں لیکن قانون کی ڈرافٹنگ بہت خوب ہے دو ماہ میں ان ترامیم کی ڈرافٹنگ کا کریڈٹ وفاقی وزیر قانون کو جاتا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا خوب تر ہے ، دوران سماعت نیب کے وکیل مخدوم علی خان نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ ان ترامیم کا کریڈٹ سابقہ حکومت کو بھی جاتا ہے، جو خود اس عمل میں شامل رہی اور بیشتر ترامیم کر بھی ڈ الیں لیکن پھر انہیں سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کردیا ہے ،ابھی خواجہ حارث کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہوجانے کی بناء پر کیس کی مزید سماعت سوموار10اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔