• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوانوں میں تحقیقی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے

ڈاکٹر ظفر فاروقی

دنیا بھر میں معاشی، معاشرتی ترقی صرف اور صرف تعلیم، علم و ہنر میں پنہاں ہے۔ اس کی نشان دہی "Human Development Index" ’’انسانی ترقی و شعار کے اشاریہ‘‘ کرتے ہیں۔ یورپی ممالک نے تعلیم پر اور صرف تعلیم پر زور دیا اور اپنے معاشرے کو معاشی، معاشرتی، سماجی لحاظ سے بلند کیا ۔ وہاں نوجوانوں میں صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر ان کے تعلیمی و تحقیقی اور فنی مہارت سے بھرپور استفادہ کیا جاتا ہے۔ دراصل ترقی یافتہ ممالک نے بھرپور انداز میں نسلِ نو کو تعلیم کے حصول کی دوڑ میں لگایا ہے۔ جی ہاں! عجیب جملہ ہے کہ ’’تعلیم کے حصول کی دوڑ‘‘ اور اس دوڑ میں جو جیت گیا، وہ موجودہ دور کے معاشرتی، معاشی، سماجی بحرانوں سے نکل گیا۔ تعلیم کی اس حقیقت کا ادراک ہمیں بھی جلد از جلد کرنا ہوگا ۔ ہمیں حقیقی تعلیمی نظام قائم کرنا ہوگا۔

بچوں سے لے کر یونیورسٹی کے طلبہ تک سب کو یکساں تعلیمی سہولتیں ملیں، جس سےمعاشرتی، معاشی ترقی حاصل کرسکتے ہیں ۔اگرچہ ہمارے ملک میں ہزاروں اسکول و کالج قائم ہوگئے ہیں، جن میں سرکاری اسکول و کالج بھی ہیں لیکن ہر شخص تعلیم حاصل نہیں کررہا ۔ ملک کے ہر فرد کو تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ہر فرد کا آئینی و قانونی حق بھی ہے۔

نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی سے ان کے ذہنوں میں تحقیقی جستجو پیدا ہوتی ہے، کیونکہ تعلیم کے حصول میں تحقیق کا پہلو بہت نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور اب تو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے چار سالہ بی ایس پروگرام کے آخری یعنی چوتھے سال ،ریسرچ پروجیکٹ کرنا لازمی قرار دےدیا ہے،اس کی اہمیت و افادیت بہت زیادہ ہے کیونکہ طلبہ و طالبات میں تحقیق کی جستجو ان کی علمی قابلیت میں اضافے کا باعث بنتی ہے اوراس پروجیکٹ سے وہ زندگی کے عملی اور پیشہ ورانہ شعبے میں بہتر انداز میں داخل ہوسکتے ہیں۔ 

اعلیٰ تعلیم کا حصول صرف اور صرف ڈاکٹر بننا ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اعلیٰ ڈگری سے منسلک اگر ان میں پیشہ ورانہ امور کا تجربہ اور ہنر ہوگا تو وہ بہتر انداز سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں، کیونکہ تحقیق کے پروجیکٹ ان نوجوان طلبہ و طالبات میں ان کے ذہنی امور مزید اجاگر کرتےہیں اور اپنے مضمون سے جڑے تمام پہلوئوں پر گہری گرفت کا بھی باعث بنتے ہیں ۔بی ایس پروگرام میں اس ریسرچ پروجیکٹ کی افادیت کو مدِ نظر رکھ کر لازمی قرار دیا گیا ہے۔

سندھ کے پی ایچ ڈی اساتذہ کرام میں ایک کثیر تعداد نوجوان پی ایچ ڈی کی ہے جو اپنی تعلیمی مہارت اور تحقیقی تجربات کو نوجوان نسل تک منتقل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، مگر کالجز میں چار سالہ بی ایس پروگرام کا آغاز نہ ہونے کی بناء پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ چار سالہ بی ایس پروگرام کا آغاز سندھ کے کالجز میں نہ ہونا ملک کے نوجوانوں کے لیے بڑا نقصان ہے، جو کہ پبلک سیکٹر کی جامعات میں تمام انٹر کرنے والے طلبہ و طالبات داخلہ نہیں لے پاتے اور چند امیر گھرانے کے طلبہ و طالبات پرائیویٹ سیکٹر جامعات میں بھاری فیس دے کر داخلہ لیتے ہیں ،مگر غریب و متوسط طبقے کے طلبہ و طالبات کو انٹر کرنے کے بعد جامعات میں داخلہ نہ مل پانا، ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔  

اسی وجہ سے یہ بات قابل غورہے کہ سندھ کے تمام کالجز میں چار سالہ بی ایس پروگرام شروع کردیا جائے تو ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات کو بی ایس پروگرام میں بآسانی داخلہ مل جائے گا اور وہ اعلیٰ تعلیم سے بہرمندہوکر ملک و قوم کے بہترین شہری بن سکتے ہیں اور یہ نوجوان اپنی علمی، تحقیقی جستجو کو پروان چڑھا کر معاشرے کا ایک بہترین فرد بن سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو تحقیق و ہنر و سے جوڑنا ہوگا کیونکہ کوئی بھی ملک بغیر تعلیم کے ترقی کی منزلوں کو حاصل نہیں کرسکا ہے۔