• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو والوں نے عربی الفاظ میں بعض ایسے تصرفات کیے ہیں جو اَب اردو زبان کا حصہ ہیں اور درست اور فصیح تسلیم کیے جاتے ہیں اگرچہ عربی کے لحاظ سے ’’بظاہر ‘‘درست نہیں ہیں۔ یہ تصرفات اردو والوں نے عربی الفاظ کے تلفظ میں بھی کیے ہیں ، قواعدی حیثیت میں بھی اور مفہوم اور استعمال کے لحاظ سے بھی۔ بلکہ بعض ’’عربی‘‘ الفاظ تو اردو والوں نے ایسے وضع کیے ہیں کہ ماشاء اللہ عربی میں بھی ان کا کوئی وجود نہیں ہے، لیکن اردو میں درست سمجھے جاتے ہیں اور مستند و معتبر اہل قلم کی تحریروں میں بھی ملتے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

٭…مُرَغَّن

اس ’’عربی ‘‘لفظ کا عربی میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اردو میں یہ’’ روغن ‘‘سے بنا لیا گیا ہے ۔ روغن فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں تیل، مکھن، گھی وغیرہ۔ جس کھانے میں تیل یا گھی یا چکنائی زیادہ ہو اُسے اردو میں مرغن کھانا کہتے ہیں۔ لیکن فارسی لفظ سے پہلے میِم (م) لگا کر عربی کی طر زپر لفظ بنانا اصولاً درست نہیں، اگرچہ اردو میں اب رائج ہے۔

٭…مُدَمَّغ

’’عربی کی طرز‘‘ پر بنائے گئے اس لفظ کا بھی عربی میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگرچہ ’’دماغ ‘‘ عربی کا لفظ ہے لیکن عربی میں مدمغ کو ئی لفظ نہیں ہے اور اردو میں دماغ سے مدمغ سے تراش لیا گیا ہے اور اردو میں مدمغ کے معنی ہیں: دماغ والا، یعنی مغرور و متکبر، گھمنڈی۔اصل میں اردو میں دماغ رکھنا یا دماغ ہونا محاورہ ہے، مراد ہے : مغرور ہونا ۔ آسمان پر دماغ رکھنا بھی محاورہ ہے ، معنی وہی ہیں یعنی مغرور ہونا، گھمنڈ ی ہونا۔جانے کس کا شعر ہے:

اس جہاں سے فراغ رکھتے ہیں

آسماں پر دماغ رکھتے ہیں

’’ مدمغ‘‘ عربی میں نہیں ہے لیکن اردو میں رائج ہے۔

٭…اولاد

اولاد عربی میں جمع ہے ولد کی۔ ولد کا مطلب عربی میں’’ بیٹا ‘‘یا ’’لڑکا‘‘ہے۔ لیکن اردو میں ولد عموماً نام لکھتے وقت استعمال ہوتا ہے مثلاً احمد ولد مشتاق۔

البتہ ولد کی جمع یعنی اولاد کا لفظ اردو میں واحد کے طور پر آتا ہے اور اردو میں اس کے مفہوم میں بیٹا اور بیٹی دونوں شامل ہیں۔ اور اسے مونث کے طور پر برتا جاتا ہے ،مثلاً : اس کی ایک ہی اولاد تھی۔ اور اگر کسی کا ایک بیٹا ہو تب بھی کہیں گے کہ اس کی ’’ایک اولاد‘‘ ہے، حالانکہ ولد واحد ہے اوراولاد تو جمع ہے۔ اسی طرح ولداصولاً مذکر ہے، لیکن اردو میں اولاد کا لفظ جمع کے بجائے واحد ہے اور مذکر کے بجائے مونث کے طور پر آتا ہے ۔

اردو والوں نے عربی کی جمع یعنی ’’اولاد‘‘ کو واحد مان کر اردو کے قاعدے سے اس کی جمع بھی بنالی ہے یعنی اولادیں ۔ مثلاً :اس کی کتنی اولادیں ہیں؟ یا : اس کی اولادوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہی۔

٭…ولد کا لطیفہ

اب ’’ولد ‘‘ کے غلط ا ستعمال کا لطیفہ بھی سن لیجیے۔ کوئی اٹھارہ بیس سال قبل جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو نے ایک کالج میں تدریس ِ اردو کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد کیا اور اس میں کراچی بھر کے کالجوں سے اردو کے اساتذہ کو مدعو کیا گیا۔ سیمینار میں شریک اساتذہ کے نام اور پتے وغیرہ کے اندراج کے لیے ایک رجسٹر رکھا گیا تھا اور مدعوکیے گئے اساتذہ سے درخواست کی گئی کہ اپنا نام، والد کا نام، کالج کا پتا وغیرہ اس میں لکھتے جائیے(تاکہ بعد میں رابطہ کرنے میں آسانی ہو)۔ مرد اساتذہ نے اپنا نام’’ فلان ولد فلان‘‘ لکھا اور ان کی دیکھا دیکھی خواتین اساتذہ بھی اپنے نام کے ساتھ فلان ولد فلان (یعنی فلان بیٹا فلان کا ) لکھتی گئیں ۔ ہمارے دوست رفیق احمد نقش (مرحوم) اس پر بہت محظوظ ہوئے اور سیمینار کے بعد ہنس ہنس کر خواتین کے ’’بیٹا ‘‘ ہونے کا ذکر کرتے رہے اور ہم افسوس کرتے رہے کہ اردو میں ایم اے کرکے کالج میں اردو پڑھانے والوں کو بھی علم نہیں کہ لڑکی ’’ولد ‘‘ نہیں ہوتی ۔

دراصل انھیں بنت ( ب کے نیچے زیر اور نون ساکن )لکھنا چاہیے تھا۔ ’’ولد ‘‘کی تانیث’’ بِنت ‘‘ہے اور انھیں فلاں بِنت فلان لکھنا چاہیے تھا،مثلاً صغریٰ بنت ِفرحان۔ بنت عربی کا لفظ ہے اور مفہوم ہے : بیٹی یا لڑکی۔ فارسی کے حساب سے ’’دُختر ‘‘ بھی لکھا جاسکتا ہے ۔

٭…خصم

خصم (خ پر زبر اور صاد ساکن )کے معنی عربی میں ہیں دشمن۔ خصومت یعنی دشمنی۔ اسی سے مخاصمت کا لفظ ہے جو دشمنی اور مخالفت کے مفہوم میں اردو میں بھی آتا ہے۔ فارسی میں شیطان اور دجّال کو ’’خصم ِ یک چشم‘‘ کہتے ہیں یعنی ایک آنکھ والا دشمن۔ لیکن اردو والے خصم کو ’’شوہر‘‘کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور خ اور صاد دونوں پر زبر بولتے ہیں ،مثلاً : اس عورت نے کتنے خَصَم کیے ہیں۔

گویا ’’خصم ‘‘عربی میں دشمن ہے اور اردو میں شوہر۔ لیکن بقول ایک خاتون کے’’عربی اور اردو میں خصم کا ایک ہی مفہوم تو ہے‘‘، بے چاری شوہر کی ستائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی