تحریر: حمید اللّٰہ بھٹی۔۔۔۔راچڈیل
پولیس کی حراست میں بائیس سالہ لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ حکومتی کوششوں اور سختیوں کے باوجوداب تک ختم نہیں ہو سکا، مظاہرین روز سڑکوں پر آتے اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، پولیس کریک ڈائون کرتی اور لاشیں گراتی ہے، غلط اور جابرانہ حکمتِ عملی کی وجہ سے اِن پُرتشدد مظاہروں میں اب تک محتاط اندازے کے مطابق 150 سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگرحکومتی حلقوں کی طرف سے بات چیت سے ماحول ٹھنڈاکرنے کی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی، اسی بناپراب احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ دیگر ممالک تک پھیل گیا ہے، ہر عورت کو بالوں کے نت نئے سٹائل دینا پسند ہے لیکن ترکی میں ہونے والے مظاہرے میں شریک خواتین اِس قدر غصے میں تھیں کہ نہ صرف احتجاجاً بال کٹوا دیئے بلکہ کئی افرادنے بطور احتجاج ایرانی پاسپورٹ تک پھاڑکر پھینک دیئے، احتجاج کایہ سلسلہ عراق اور فرانس سمیت کئی اور ملکوں تک دراز ہونے لگاہے، یہ پیغام ہے کہ حکمران سخت گیر پالیسیاں ترک کردیں مگروہ حقائق کا سامنا کرنے یا مظاہرین کے غصے کی شدت کو دلیل سے کم کرنے کی بجائے طاقت سے کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں، ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے بھی مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت پر جاری احتجاجی مظاہرین کوکچلنے کیلئے سیکورٹی فورسزکی طرف سے طاقت کے استعمال کی نہ صرف حمایت کردی ہے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی ہے، یہ کوئی اچھا طریقہ کار نہیں، ایسا رویہ یا طرزِ عمل احتجاج کو تقویت دینے کا باعث بنتاہے۔ مہسا امینی کوئی جرائم پیشہ یا کسی منشیات فروش گروہ کی رُکن نہیں تھی بلکہ وہ حجاب طریقے سے نہ کرنے کی مرتکب ہوئی تھی، اسلامی طریقہ کار تو یہ ہے کہ ابتدا میں منع کیا جاتا، اگرپھربھی بضد رہتی تو ہلکی سی سرزنش کے بعدلڑکی ہونے کے ناطے درگزرکرتے ہوئے چھوڑ دیا جاتا مگر پولیس نے گرفتار کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اُس کی موت واقع ہو گئی، حجاب درست طریقے سے نہ کرنے کی پاداش میں ماری جانے والی لڑکی پرتشددمیں مرد اہلکاروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اب یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر درست طریقے سے حجاب نہ کرنا جُرم ہے تو ایک نہتی عورت پر مردوں کا ہاتھ اُٹھاناکیسے اسلامی ہو گیا ؟راقم باوجود کوشش کے نامحرم مردوں کی طرف سے ایک عورت پر تشدد کا جواز قرآن و حدیث سے تلاش نہیں کر سکا، ایسی سفاکیت اور طاقت کے اندھے استعمال کاسبق نہ جانے ایرانی پولیس نے کہاں سے پڑھاہے، کچھ بتانے یا اندازہ لگانے سے قاصر ہوں، البتہ اِس بات میں شائبہ نہیں کہ ایران ہر معاملے کو بیرونی قوتوں سے نتھی کردیتا ہے، ہر احتجاج کو امریکی اور اسرائیلی سازش کہہ کر کچل دیا جاتا ہے، حالیہ مظاہروں کو بھی مذکورہ ممالک کی سازش اور سرپرستی کہا جا رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ایران میں قدامت پسندوں اور لبرلزمیں کھینچا تانی اب عروج پرپہنچ چکی ہے کیونکہ اِس وقت ایران پر قدامت پسندوں کا راج ہے، ان کا لبرلز سے عدم برداشت کا رویہ ہے جو حیلے بہانوں سے قدامت پسندی کے خلاف ہر حرکت یا کوشش کو بزور طاقت کچلنے پر یقین رکھتے ہیں ،یہی وجہ دراصل مہسا امینی کی ہلاکت کا باعث بنی ہے، لبرلز کے ہاتھ بھی بہانہ آگیاہے وہ بھی اِس آڑ میں سڑکوں پر ہیں اورحجاب کے بارے میں فیصلہ کُن نرمی چاہتے ہیں،ایک نہتی لڑکی سے سفاکانہ سلوک پر ملک کا ہر طبقہ غم و غصے سے بھرابیٹھا ہے مگر حکومت نے آنکھیں بندکررکھی ہیں، ہر شخص آزادی پر قدغن کا جوازطلب کر رہا ہے مگر جواب دینے کی بجائے حکومت غیرملکی سازش کہہ کر مظاہرین کو کچلنے میں مصروف ہے، اِس میں ہنوزاُسے کوئی کامیابی نہیں ملی، غیر ملکی سازش کے الزام میں بھی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ کسی ملک نے اگر زیرِ حراست لڑکی کو مارنے کے لیے پولیس کو استعمال کیا یا اُکسایا ہے تو ایرانی قیادت کا فرض ہے کہ پولیس سے پوچھ گچھ کرے جو غیر ملکی سازش میں آلہ کار بنی، کیونکہ بیرونی قوتیں اگر پولیس کو اپنے اشاروں پر چلا نے پر قادر ہیں تو محاسبہ پولیس کا ہونا چاہیے، اپنے عوام کو مارنے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آتا ۔ ایرانی حکومت بے جاسختیوں سے اپنے خلاف ہی بنی فضا کو مزید ہوادے رہی ہے، ایک طرف ملک میں نہتی لڑکی کو تشدد سے ہلاک کرنے کے خلاف مظاہرے عروج پر ہیں، اِن ایام میں بھی حکومت نے اپنے طرزِ عمل سے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ امن و سکون کی فضا قائم کرنے میں سنجیدہ ہے کیونکہ دارالحکومت تہران میں ریسٹورنٹ کے اندر بیٹھ کر کھانا کھاتی ایک خاتون کو اِس بناپر گرفتار کر لیا گیا کہ وہ بغیر حجاب کھانا کھارہی تھی، ایسے ہی بڑھتے واقعات پرقانون دان نسرین ستودہ کہتی ہیں کہ مظاہرین دراصل ایران میں رجیم کی تبدیلی چاہتے ہیں، مظاہروں میں شریک بغیر اسکارف بال باندھتی بیس سالہ ہادیس نجفی کو اِس پاداش میں گولیاں مارکر قتل کردیا گیا،لڑکی کو گردن،پیٹ ،دل اور ہاتھوں پر گولیاں ماریں گئیں، اِس قتل کا ذمہ دار بھی مظاہرین پاسدارانِ انقلاب کوٹھہراتے ہیں، اِس میں سخت پیغام ہے بے حجاب پھرنے والی خواتین کے لیے، کیونکہ ہادیس نجفی نے نہ صرف بے خوف ہوکر مظاہرے میں شرکت کی بلکہ بغیر اسکارف بال باندھتے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی، اِسی بناپر عبرت کا نشان بنا دی گئی، دراصل جب لوگوں کو آزادی اظہار سے محروم کیا جاتا نیز پہناوے پر پابندیاں لگتی ہیں تو لوگ بے جا پابندیوں کے خلاف بولتے ہیں مگر حکومت جان بوجھ کراِس کا ادراک نہیں کر رہی، ایسا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے تب ہی بدستور اپنے خیالات کی مقید ہے، حکومت کاغیر ملکی طاقتوں پر مظاہرین کی پُشت پناہی کا الزام لگا نا دراصل سختیوں کو چھپانا ہے، اب تو مظاہروں کی میڈیا میں کوریج روکنے کے لیے صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے پر بھی سختیاں شروع کر دی گئی ہیں، لگ بھگ بائیس کے قریب خواتین صحافیوں کو گرفتارکرنے کے بعد پابندِ سلاسل کیا جا چکا ہے مگرحالات چھپانے کی حکومتی خواہش پوری نہیں ہوسکی، نہ صرف مظاہرے جاری ہیں بلکہ دنیا بھر کا میڈیا بھرپورکوریج بھی کررہا ہے، سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس واٹس ایپ اور انسٹاگرام کو بندکرنے کے ساتھ حکومت نے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس اور موبائل سروس معطل کردی جس سے آبادی کا بڑا حصہ رابطوں سے محروم ہے مگر تمام نامساعد حالات کے باوجود سوشل میڈیاپر مظاہروں کی تفصیلات موجود ہیں لیکن لگتا ہے حکمران دیکھنے،سُننے اورسمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ایران میں ہونے والا واقعہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہا بلکہ ایرانی لوگوں کی طرح ساری دنیا شناساہوچکی ہے اور کئی ممالک سے اب تو ردِ عمل بھی آنے لگاہے ،امریکا نے مہسا امینی کی ہلاکت کا ذمہ دار اخلاقی پولیس کو قرار دیتے ہوئے اُس کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے، یو این اوکے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مظاہروں کے دوران خواتین اور بچوں سمیت ہونے والی ہلاکتوں کی اطلاعات پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے مظاہرین کے خلاف غیر مناسب طاقت کا ستعمال روکنے کا مطالبہ کر دیا ہے، یورپی یونین نے بھی بدترین کریک ڈائون کی شدید مذمت کی ہے، اگر پڑھے لکھے ملکی طبقے کی بات کریں تو اساتذہ بھی خاموش نہیں زنجان یو نیورسٹی میں فزکس کی پروفیسرانسیہ عرفانی نے ٹویٹر پر استعفے کا اعلان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سڑکیں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں مگر ایرانی حکومت یا پاسدارانِ انقلاب کے رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آیا جس پر اساتذہ خاموش نہیں رہ سکتے، ایسے ردِ عمل کو جھٹلانایاچھپانا آسان نہیں مگر حکومتی روئیے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اختلافی آوازوں کو کچلنے اور دبانے کے عمل میں کسی کوکسی قسم کی رعایت دینے پر تیار نہیں اسی وجہ سے مظاہرے بحران میں تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔
hameedullahbhati@gmail.com