• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالصبور شاکر فاروقی

میں گریجویشن کر رہا تھا جب سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ شروع شروع میں چند ایک رشتہ داروں نے مالی امداد کی لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا۔ غرض گردشِ حالات نے تعلیمی سلسلے کو بریک لگا دی۔ میں نے کالج کو خیرباد کہا اور ایک ہوٹل میں بیرے کے طور پر کام کرنے لگا، ان ہی دنوں میری ملاقات شہر کے ایک مشہور ڈاکٹر سے ہوئی۔ انہوں نے میرے چہرے بشرے اور انداز گفتگو سے جان لیا کہ میں پڑھا لکھا ہوں۔ پاس بلایا اور کہا،’’ تعلیم تمہاری ذاتی سوچ اور آوارہ گردی نے چھڑائی یا حالات زمانہ نے؟‘‘ میری آنکھیں بھر آئیں، جس سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ ، معاشی حالات کے بنا پر میں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی ہے۔

’’بیٹا! تم اس ہوٹل میں کتنا وقت دیتے ہو؟‘‘ انہوں نے نرمی سے پوچھا ۔

’’رات بارہ بجے تک ‘‘میں نے جواب دیا

’’ پھر کیا کرتے ہو؟‘‘انہوں نے دوبارہ پوچھا

’’جی! کچھ نہیں، کبھی گھر چلا جاتا ہوں کبھی ہوٹل میں ہی سو جاتا ہوں‘‘ میں نے گلوگیر آواز میں جواب دیا۔

’’ دیکھو بیٹا! یہاں کوئی بھی خوش نہیں۔ کسی کو دولت کی کثرت نے مسائل میں الجھا رکھا ہے اور کسی کو دولت کی قلت نے۔ میں بھی تمہاری طرح دوران تعلیم تمھارے جیسے حالات کا شکار تھا لیکن میں نے تعلیم نہیں چھوڑی تھی۔ میں کالج سے واپس آ کر ایک کار مکینک کے ساتھ کام سیکھتا۔ شام کے بعد ایک شاپنگ سینٹرکی ایک دکان پر رات بارہ بجے تک کام کرتا، جہاں گاہکوں کو ڈیل کرنے کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی اور مالک کے بعض ذاتی کام بھی کرتا۔ روقت کے ساتھ ذرائع آمدن تبدیل ہوتے رہے۔ 

پٹرول پمپ، ریسٹورنٹ، فوٹو سٹیٹ مشین، موچی، مرغی فروش، میڈیکل اسٹور، ڈسپنسری، غرض میں نے مختلف کام کیئے، بالآخر گرتے پڑتے ایم بی بی ایس کر لیااس کے بعد آگے بڑھتا رہا آج الحمد للہ میرا شمار شہر کے متمول ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ ‘‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگیں۔ دوبارہ تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ سر اُبھارنے لگا۔ میں ایک نئے عزم کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری بڑی رہنمائی کی اور تعلیم کے حصول میں بھی مدد کی۔نہ صرف میں نے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کی ساتھ اپنے بہن بھائیوں کو بھی تعلیم دلائی۔ خود پی ایچ ڈی کر لیا۔ یہ میری محنت اور لگن تھی جس کی راہ ڈاکٹر صاحب نے دکھائی تھی اب میں ایک کالج میں پڑھارہا ہوں۔

ہمارے معاشرے میں نوجوان اپنی تعلیم کا سارا بوجھ بوڑھے والدین کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیتے ہیں اور خود گل چھرے اڑاتے ہیں۔ یورپ میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں میٹرک کے بعد تعلیم کا اکثر خرچ اولاد خود اٹھاتی ہے، جس سے ان میں نہ صرف کفایت شعاری اور قناعت کی صفات پیدا ہوتی ہیں بلکہ زندگی گزارنے کا تجربہ بھی ہو تا ہے، چنانچہ جب وہ عملی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو دھوکہ کھانے اور ناتجربہ کاری کے باعث نئے نئے تجربات سے بچ جاتے ہیں۔

اب تو بہت آسانی ہو گئی ہے۔ آپ اپنے اینڈرائیڈ موبائل کے ذریعے آن لائن ٹیوشن پڑھا سکتے ہیں، موبائل گرافکس سیکھ کر ہلکی پھلکی آڈیو ویڈیو ایڈیٹنگ، وائس اوور، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور ڈیزائننگ کر سکتے ہیں۔ تخیل، مشاہدہ اور مطالعہ وسیع ہے تو مضمون نگاری، شاعری یا کانٹیکٹ رائٹنگ کر سکتے ہیں۔ لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر میسر ہے، پھر تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ السٹریٹر، فوٹوشاپ، کورل ڈرا، ان پیج سیکھ کر ہزاروں نہیں، لاکھوں روپے کما سکتے ہیں۔ لوگ آج کل ڈیجیٹل اور ایفیلیٹ مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بناتے ہیں اور پھر کسی تاجر سے رابطہ کر کے اس کی پراڈکٹ اپنا کمیشن رکھ کر آگے بیچ دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے علاقے کی مشہور سوغات مثلاً سوہن حلوہ، دستکاری کی چیزیں، کھدر کا کپڑا، اجرک، کھجور، شہد اور ریوڑی وغیرہ بیچ کر ٹھیک ٹھاک منافع کما رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے آن لائن کباڑ خانہ کھول رکھا ہے، جس میں سیکنڈ ہینڈ موبائل فون سے لے کر بڑی بڑی گاڑیوں تک اور کتابوں سے لے کر جیولری تک سب کچھ بیچتا ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدن لاکھوں روپے ہے۔ کچھ لوگ اپنا ٹیلنٹ، فن یا آرٹ بھی آن لائن بیچتے ہیں۔

ساتھیو! کچھ کام آف لائن اپنے علاقے میں بھی کیے جا سکتے ہیں۔ میرے دوست نے اپنے پانچ دوستوں کو جمع کر کے ایک ٹیم بنائی ہے۔ ان کے پاس برگر بنانے کی ایک بہترین ترکیب تھی۔ ایک دوست نےایک چھوٹی سی دکان کا بندوبست کیا، دوسرا کرسیاں اور میز لے آیا، تیسرے نے برتنوں کا اہتمام کیا، چوتھے نے برگر میں استعمال ہونے والے مسالے اور دیگر چیزوں کا اہتمام کیا جب کہ پانچویں لڑکے نے بطور کاری گر اپنی خدمات پیش کیں۔ باقی پیسہ اپنی روز مرہ کا جیب خرچ بچا کر جمع کیا۔

یونیورسٹی سے واپسی پر وہ اپنی شاپ کھولتے اورات بارہ بجے تک کام کرتے ہیں۔ اب ماشاء اللہ ان کے پاس ٹھیک ٹھاک گاہک آنے لگے ہیں۔ ان لڑکوں کا کہنا ہے کہ ہمارا کاروبار نہ بھی چلے ،تب بھی ہمیں ہو رہا ہے، جو ہمیں بڑے کاروبار میں ان شاء اللہ العزیز کام آئے گا۔ اسی طرح میرا چھوٹا بھائی مستقبل میں بوتیک کھولنا چاہتا ہے، وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ابھی سے درزی کی دکان پر بیٹھتا ہے، تاکہ اس کام سے واقفیت حاصل کر لے۔ میرا ایک دوست سوفٹ ویئر انجینئرنگ کر رہا ہے وہ گاہے بہ گاہے مارکیٹ میں جاتا اور سوفٹ ویئر کا کام کرنے والے دوستوں کے پاس بیٹھتا ہے۔ اس لیے میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ پڑھائی کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھیں۔

وقت کی تقسیم اس طرح کریں کہ ایک حصہ تعلیم کو، دوسرا گھر کے کاموں، تیسرا پیسہ کمانے، چوتھا کوئی ہنر سیکھنے، پانچواں اپنے آرام اور چھٹا اپنے رب کی عبادت کے لیے وقف کریں۔ قائد اعظم کے اس فرمان پر کاربند رہیں کام، کام اور کام... لیکن یہ کام بھی اتحاد، تنظیم اور کامل یقین سے کریں گے تو ایک دن تمہیں اپنے سارے مسائل سے نجات مل جائے گی۔