ملک بھر میں ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابیوں نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت برقرار ہے جبکہ مہنگائی ، لوڈشیڈنگ، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ PDMبالخصوص (ن) لیگ کو لے ڈوبا ہے۔ ضمنی انتخابات بظاہر شفاف ہوئے ہیں اور ان میں ’’نیوٹرلز‘‘ کی جانب سے بھی غیر جانبداری دیکھنے میں آئی ہے یہی وجہ ہے کہ کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی شفافیت پر سوالات نہیں اٹھائے اور نتائج کو تسلیم کیا ہے ۔(ن) لیگ کے امیدوار سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی نے برملا مہنگائی کو اپنی شکست کی وجہ تسلیم کیا ہے۔
بلاشبہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بے قابو مہنگائی اور بجلی، پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے ساتھ ووٹرز کے سامنے جانا بہت مشکل کام تھا جس پر ووٹرز نے اپنے غم وغصے کا اظہار ووٹ کی پرچی کے ذریعے کیا۔جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے انتخابی حلقہ میں جلسے جلوس اور انتخابی مہم چلا کر سیاسی ماحول گرمائے رکھا۔ عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث بھی ان کی پارٹی فتح سے ہمکنار ہوئی ہے ضمنی انتخابات میں کامیابی سے تحریک انصاف کے بیانیے کی عوام میں پذیرائی بھی ثابت ہوئی ہے۔دوسری طرف کپتان کی 6نشستوں پر کامیابی نے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو بہت خوش کر دیا ہے او وہ برملا اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
تاہم یہ وقت نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ جس میں کپتان کو اپنے بیانیے سے ابہام کو دور کرنا ہے۔تحریک انصاف کے ووٹرز و سپورٹرز کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ ہے جس کو کپتان کے بیانیہ میں موجود ابہام کے بارے تحفظات ہیں سیاسی شعور رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک جانب تو عمران حکومت میں اداروں کی مداخلت اور اپنی بطور وزیر اعظم ’’بے اختیاری‘‘ کا رونہ روتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ اداروں کو مداخلت کے لئے اکساتے اور امپورٹڈ حکومت سے نجات دلانے کے لئے مدد کرنے کو کہتے ہیں۔
اپنے اسی تضاد بیانیے کے باعث تحریک انصاف کا سیاسی باشعور ووٹر تذبذب کا شکار ہے جبکہ آڈیو لیکس کے بعد اینٹی امریکی اور رجیم چینج بیانیہ بھی زیادہ موثر نہیں رہ سکا۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی ضمنی انتخابات میں کامیابی اور عمران خان کی جانب سے 6نشستیں جیت کر ریکارڈ قائم کرنے نے ان کے سابقہ متضاد بیانیوں کی پردہ پوشی کر دی ہے یہ درست وقت ہے جب وہ اپنے بیانیے کو واضح کر سکتے ہیں اگر انہوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنانا ہے جو کہ بلاشبہ اس وقت عوام میں بے حد مقبول ہے تو انہیں‘‘اسٹیبلشمنٹ ‘‘ نیو ٹرلز اور ’’محافظوں‘‘ کو مختلف طریقوں سے آواز دینے کی پالیسی ترک کرکے آگےبڑھنا ہو گا۔
دوسری جانب ضمنی انتخابات کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے لئے لانگ مارچ کے حوالے سے فیصلہ کرنا آسان ہوگا ۔بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ کپتان بھی عوامی مقبولیت کا جائزہ لے رہے اور اس کا اندازہ لگانے کے لئے انہوں نے ضمنی انتخابات تک لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ضمنی انتخابات میں وہ عوام کا رجحان جان کر ہی لانگ مارچ کے حوالے سے فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔
اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف جلد ہی لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے والی ہے بعد اس حوالے سے ’’ہوم ورک‘‘ مکمل کیا جا رہا ہے جس کا ٹاسک پنجاب میں مشیر خارجہ تحریک انصاف کے بانی کارکنان ہی سے ایک عمر سرفراز چیمہ کو سونپا گیا ہے مشکل وقت میں جب عمر سرفراز چیمہ کو چند روز کے لئے پنجاب کی گورنری دی گئی تھی تو انہوں نے ثابت کیا تھا کہ دیرینہ پارٹی کارکنان ہی تحریک انصاف کا اصل اثاثہ ہیں اور ان کے دور میں چند ہفتے وزیر اعلیٰ رہنے والے حمزہ شہباز شریف کو انہوں نے ٹف ٹائم دیا تھا۔اب بھی لانگ مارچ کے حوالے سے انہیں پنجاب میں اہم ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں اس بار لانگ مارچ میں پچھلی بار جیسی مزاحمت کی توقع دکھائی نہیں دے رہی پنجاب پہلےہی PDM کے ہاتھ سے نکل چکا ہے کے پی یو بھی ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی وفاقی حکومت کے تحفظ میں کوئی امداد بھجوائے جانے کی امید نہیں ہے مجموعی طور پر صوبائی حکومتوں کی جانب سے وفاق کو نفری یا کمک پہنچے کی کوئی امید نہیں۔ دوسری جانب بیوروکریسی کی جانب سے بھی خاص تعاون کی امید نظر نہیں آ رہی تمام صورتحال کو مدنظر رکھیں تو بازورقوت لانگ مارچ کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کسی طور پر درست معلوم نہیں ہوتی ۔ضمنی انتخابات نے بھی عوامی رائے کا واضح اظہار کر دیا ہے ۔تمام تر صورتحال میں مشیر داخلہ عمر سرفراز چیمہ کی لانگ مارچ کے حوالے سے تیاریاں بہتر دکھائی دے رہی ہیں۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کی تیاریوں اور حکمت عملی کے حوالے سے عمر سرفراز چیمہ نے خصوصی تیاریاں شروع کر دی ہیں وہ نہ صرف یونین کونسل کی سطحوں پر لانگ مارچ کی حکمت عملی طے کر رہے ہیں اور ذمہ داریاں سونپ رہے ہیں بلکہ وہ لانگ مارچ میں وفاق کی جانب سے ہونے والی ممکنہ مزاحمت کے توڑ اور حل بھی تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔
تحریک انصاف کے پچھلے لانگ مارچ میں پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی ورکرز اور کارکنان کے ساتھ کی جانیوالی سختی پر وہ متعلقہ ذمہ داران کا تعین کرنے میں مصروف ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ذمہ دار پولیس حکام کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی تشکیل دینے جا رہے ہیں تاکہ آئندہ کسی بھی قسم کی قوت کا استعمال کرنے اور سیاسی آلہ کار بننے سے اداروں کے لوگوں کو روکا جاسکے۔