• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمارہ حسن

ایک عظیم انسان وہ ہوتا ہے جو کسی بڑے مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی اس کے اندر عاجزی و انکساری ہو۔ آج ذرا معاشرے پر نظر دوڑائیں تو یہ انکساری و عاجزی ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان کے اندر فخر و غرورکا عنصر نمایاں ہوگا، تو دوسری طرف بہت سے افراد مایوسی کا شکار نظر آئیں گے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آیئے دیکھتے ہیں۔

ذرا اپنے اسکول، کالج، اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی نسل کا جائزہ لیتے ہیں کہ، آخر یہ غرور ہوتا کیوں ہے؟ ایک بچہ اپنی جماعت کا بہت ذہین طالب علم تھا، اس نے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کیا، یونیورسٹی میں سب مضامین میں بہترین گریڈ حاصل کیے۔ ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔ اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ ہاں میں کچھ کرسکتا ہوں، میں کوئی بڑی چیز ہوں۔ یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔ کرتے کرتے وہ عملی زندگی میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہوا۔ 

اب اس کا وہ احساس مضبوط ہوتا چلا گیا کہ،جس کے پیدا ہونے کے پیچھے بہت سے افراد کا ہاتھ بھی ہوتا ہے، جو اسے اس مقام تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی، ایسا شخص دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ جس کے باعث لوگوں کو ایسے رویوں کی وجہ سے مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں، بالخصوص طالب علموں کو، کتنے ہی زرخیز ذہن آج فارغ بیٹھے یا اپنی زندگی سے مایوس نظر آتے ہیں، کیو ں کہ ان کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ معا شرے میں ان کوکوئی مقام نہیں مل سکتا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم طالب علموں کی صلاحیتوں کو پرکھنا نہیں جانتے۔ 

ایک طالب علم کسی گو ہرِ نایاب سے کم نہیں ،لیکن افسوس کہ اس کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے والا کوئی نہیں۔ ایک بچہ جو سب مضامین میں اچھے گریڈ لے رہا ہے، استاد کی نظر میں اس کی اہمیت ہےاور ایک کم گریڈ لینے والے بچے کو کسی نہ کسی طرح یہ احساس دلایا جارہاہے کہ وہ کسی قابل نہیں ۔ کوئی باتوں سے یہ احساس دلاتا ہے، کوئی رویّے سے ، تو کوئی نظروں سے جتاتاہے کہ تم کسی قابل نہیں۔ کتنے ہی نوجوان ایسے ہیں جو ان رویو ں کے سبب آج کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ بچے کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ اسے جانا کس فیلڈ میں ہے۔ مانا کہ تعلیمی نظام معیاری نہیں، مگر ہم خود کون سا صحیح ہیں ؟ چلیں تعلیمی نظام ہی خراب ہے، بچہ غلط فیلڈ میں آگیا تو کیا اب اسے اس کی سزا ملے گی کہ سا ری زندگی اسےحقارت کا نشانہ بنایا جائے ۔فرینک نیٹرنیو یارک میں پیدا ہوا۔ اس کو مصوری کا شوق تھا۔ لیکن اس کے والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے، اس نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی ،مگر ساتھ ساتھ مصوری کے شوق کو بھی جاری رکھا۔ 

ایک وقت آیا کہ وہ مصوری سے اتنا کمانے لگا کہ طب چھوڑ کر مصوری کرنے لگا۔ بل گیٹس کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا، بل گیٹس نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ، میں فیل ہو گیا تھا اور میرا دو ست کامیاب ہوگیا تھا ۔آ ج مائیکرو سافٹ کمپنی کا مالک ہوں اور میرا دوست اس میں کام کرنے والا انجینئر ہے۔ یہ باتیں صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہو تیں، یہ ان کے تجربات ہیں جو ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد کامیابی تک پہنچے۔ ایک ایک بچہ ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہے۔ ایک بچے کا نقصان پورے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے۔

آپ بھی اپنے بچوں کے اندر چھپی صلاحتیں تلاش کریں۔ وہ شاید نہیں سمجھ سکتا لیکن آپ تو سمجھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی بچہ انجینئرنگ میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے لیکن وہ ایک بہترین مصنف یا بہترین مصور بن جا ئے۔ ہر انسان کو اللہ نے کوئی نہ کوئی صلاحیت عطا کی ہے، بس ان کو نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ضروری نہیں کہ آپ کچھ نیا ہی ایجاد کریں، آپ پہلے سے بنے سافٹ ویئرز کا مثبت استعمال کر کے دنیا کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اللہ نے آپ کو صحت دی، صلاحیتیں دیں، ان کا فائدہ اٹھائیں ، اور خلقِ خدا کو آرام پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔ طلباکو، مقابلہ بازی میں لگا دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک علم، علم ہے چاہے کہیں سے بھی حاصل کریں۔ 

حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ جس، نے مجھے ایک لفظ پڑھایا، وہ میرا استاد ہے۔ آج طالب علم مختلف علمی مدارس کو برا بھلا کہتے ہیں کہ فلاں تعلیمی ادارہ اچھا فلاں برا کہتے ہیں آخر یہ سب کیا ہے ؟ تعلیمی اداروں کو برا بھلا کہتے ہوئے لگتا ہے کہ علم کو برا بولا جارہا ہے آپ کہیں سے بھی علم حاصل کریں، آپ کے اپنے اندر قابلیت ہے تو اپنا آپ منوالیں گے۔ 

یاد رکھیں دنیا میں نہ کوئی چیز بیکار ہے اور نہ ہی کوئی انسان حقیر۔ ایک تعلیم یافتہ انسان اپنی قابلیت پر غرور کرنے لگتا ہے تو وہ پڑھ کر بھی ان پڑھ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ ایک بچہ جس کو یہ تو سکھایا جاتا ہے کہ تمہیں ہر مضمون میں اے گریڈ لینا ہے، لیکن یہ نہیں سکھایا جاتا کہ تمہیں اپنی قابلیت کی وجہ سے تضحیک نہیں کرنی۔ 

دنیاوی ڈگریاں ایک بچے کو یہ نہ سکھا سکیں کہ انسانیت کا رشتہ بھی ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان کے اندر عجز و انکساری پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہونی چائیے، جو افراد تعلیم حاصل نہیں کر سکے ان کا مذاق اڑانا یا اپنے رویّے سے ان کو دکھ پہنچانا نہایت غلط ہے۔ اگر کوئی شخص علم حاصل نہیں کر سکا تو اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

عہد کریں کہ اللہ نے جوعلم کی دولت سے آپ کو نوازاہے تو ایک بہترین طالب علم ہونے کا ثبوت دیں گے اور ایک بہترین طالب علم وہی ہوتا ہے جو زندگی کے ہر میدان میں عملاََ اچھا ہو، کیوں کہ علم تو بہت سوں کے پاس ہے مگر عمل کوئی کوئی کر پاتا ہے۔