• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلاس روم کی آخری صف میں بیٹھ کر دنیا کو بدل دوں گا

دنیا کا بہترین دماغ کلاس روم کی آخری صف میں بیٹھ کر بھی دنیا کو بدل سکتا ہے۔ میں نے 22 سال تک پڑھایا لیکن کبھی طلبا کی حاضری نہیں لی، کیونکہ کلاس اتنی دلچسپ ہوتی تھی کہ طلباء کو خود ہی آنا پڑتا تھا، میں نے کبھی بھی کلاس روم میں خوف پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ کلاس روم طلباء کا دوسرا گھر ہوتا ہے۔ کوئی بھی طالب علم جو دیر سے آیا، میں نے شرکت کی اجازت دی، چاہے وہ کلاس ختم ہونے سے دس منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو، اس کا مطلب ہے ذمہ داری کا احساس۔ 

میں نے کبھی بھی لفظ کو دو بار سے زیادہ نہیں دہرایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ ہر کوئی اتنی گہرائی سے سن رہا ہے کہ اسے دہرانے کی ضرورت ہی نہیں۔ میں نے کبھی بھی مکمل 90 منٹ تک نہیں پڑھایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اچھے، اوسط اور کمزور طلبہ کی حوصلہ افزائی مختلف ہوتی ہے۔ میں نے کبھی نقد جرمانہ نہیں کیا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ کلاس میں کوئی یتیم یا غریب بچہ ہوگا۔ 

میں نے اپنے طالب علموں کو کبھی اپنے دروازے کے پیچھے انتظار کرنے نہیں دیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ دروازے کے پیچھے کھڑا ہونا عزت نفس کو ختم کر دے گا۔ میں نے ہمیشہ اجتماعی سزا کو انفرادی سزا سے بہتر سمجھا۔ میں نے ہمیشہ طالب علم کو بورڈ پر بلایا اور اس سے وہ پوچھتا جو کچھ وہ جانتا تھا۔ یہ خیالات ہیں عبدالکام کے، جو انہوں نے آٹو بائیو گرافی میں قلم بند کیئے ہیں۔

عبد الکلام بھارت کے سابق صدر اور معروف جوہری سائنس دان تھے۔ 15 اکتوبر1931ء کو ریاست تمل ناڈو میں پیدا ہوئے اور 27 جولائی 2015ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔ عبد الکلام بھارت کے گیارہویں صدر تھے، انہیں بھارت کے اعلٰی ترین شہری اعزازات پدم بھوشن، اور بھارت رتن بھی ملے۔ ان کے والد ماہی گیروں کو اپنی کشتی کرائے پر دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ ان پڑھ تھے، لیکن عبد الکلام کی زندگی پر ان کے والد کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کے دیے ہوئے عملی زندگی کے سبق ان کے بہت کام آئے۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ ابتدائی تعلیم کے دوران بھی وہ اپنے علاقے میں اخبار تقسیم کیا کرتے تھے۔

انہوں نے مدراس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے خلائی سائنس میں گریجویشن کی، بعد ازاں دفاعی تحقیقاتی ادارے میں کام کیا جہاں ہندوستان کے پہلے سیٹلائٹ طیارے پر کام ہو رہا تھا۔ اس سیارچہ کی لانچنگ میں ڈاکٹر عبد الکلام کی خدمات سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر انہوں نے پہلے سیٹلائٹ جہاز ایسیلوا کی لانچنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اسکول کے زمانے میں ایک بارعبدالکلام اپنی کلاس کی پہلی صف میں کسی امیر زادے کے بیٹے کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ماسٹر نے کہا کہ، کیسے ایک مسلمان بچہ پہلی صف میں بیٹھ سکتا ہے۔ ماسٹر نے ڈاکٹر عبدالکلام کو اس گستاخی پر تھپڑ مارا اور حکم دیا کہ آخری صف میں جا کر بیٹھ جاؤ۔وہ پیچھے جا کر بیٹھ گئے اور اپنے آپ سے کہا میں پیچھے بیٹھ کر دنیا کو بدل دوں گا۔

پرانے اور قابل لوگوں کی یہ وہ باتیں ہیں جو اب کہیں نظر نہیں آتیں اگر موجودہ دور میں ان پر عمل کیا جائے تو بہترین طلبا سامنے آئیں گے ۔اور نسلِ نو ان لوگوں کی باتوں سے سبق حاصل کرے تو وہ ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔