• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امید ہے اپوزیشن گیٹ نمبر 4 نہیں پارلیمنٹ میں ہوگی، بلاول

لاہور (نمائندہ جنگ)چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ امید ہے اپوزیشن گیٹ نمبر 4نہیں پارلیمنٹ میں ہوگی، پارلیمنٹ کے ذریعے سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا خاتمہ پاکستان کی جمہوریت کی سب سے بڑی کامیابی ہے.

وزیراعظم کو منتخب کرنے اور گھر بھیجنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پارلیمان اسے گھر بھیجے، عمران خان ہماری نظر میں سلیکٹڈ تھا اور ا س نے غیر جمہوری طریقے سے عہدہ سنبھالا لیکن ہم نے جمہوری طریقے سے اسے گھر بھیجوایا.

عاصمہ جہانگیر میرے لئے رول ماڈل تھیں، آج اگر وہ ہوتیں تو انہیں بطور وزیرخارجہ ملتا تو وہ پوچھتی کہ کسی ڈیل کے ساتھ وزیرخارجہ تو نہیں بنے تو انہیں بتاتا کہ ایسا نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا اب گرینڈ ڈائیلاگ نہیں انتشار ختم کرنا ہوگا، جسٹس شاہد کریم نے کہا کئی عدالتی فیصلے اچھی پینٹنگز کے سوا کچھ نہیں ،اعظم تارڑ نے کہا اب جبری گمشدگی پر 5سال قید کی سزا ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جنوبی ایشیا میں آئینی بحران کے موضوع پر منعقدہ پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔کانفرنس سے اختر مینگل، منظور پشتین، جسٹس علی باقرعلی ظفر سمیت شخصیات نے بھی خطاب کیا۔

 بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ سب اچھا نہیں لیکن جہاں جمہوری حکومتوں نے کام کیا ہے بہتری آئی ہے۔ماضی میں ہمارے وزراء اعظم کے ساتھ کیا ہوا کسی کو پھانسی چڑھایا گیا کسی کو دہشت گرد حملے اور بم دھماکے میں مروایا گیا اور کسی کو جلا وطن کیا گیا لیکن پہلی مرتبہ اب جمہوری طریقے سے وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا۔

 بلاول بھٹو نے کہا کہ آئندہ بھی عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے کے بجائے اور چار نمبر دروازے پر جانے کے بجائے جمہوری طریقے اور پارلیمان کے عدم اعتماد سے ہی وزیراعظم کو ہٹانا چاہئے۔

 پاکستان کی تاریخ میں عمران خان پہلا وزیراعظم ہو گا جس نے اپنے ہی ملک کی معیشت پر خودکش حملہ کرکے عہدہ چھوڑا تاکہ آنے والوں پر اس کا بوجھ پڑھ سکے۔ ملک کی معیشت کے ساتھ ایسا کھلواڑ کبھی نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاسی قیمت ادا کی لیکن معیشت بچائی اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے بچا لیا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جیسا ہی خان صاحب کے خودکش حملے سے بچے تو تاریخ کے سب سے بڑھے سیلاب نے تباہی مچا دی ،کچھ علاقے آج تک پانی کے نیچے ہیں ۔

 سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نےاپنے خطاب میں کہا حالات کی ذمہ داری سے ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے ، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ آرمی چیف کی تعیناتی نہیں بلکہ معیشت کی تباہی حالی ہے آج جج اپنی تقرریوں کی بات کر رہے ہیں ،نظام آئین کے مطابق نہیں چل رہا، ہم نے مشرقی پاکستان کے حالات دیکھے ہیں تب بھی لوگ اتنے ہی بے خبر تھے .

رضا ربانی نے کہا تھا کہ گرینڈ ڈائیلاگ ہونا چاہئے لیکن اب صرف اس سےکام نہیں چلے گا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا آج ایک جماعت کو سو فیصدسیٹیں بھی دے دیں تو ملک نہیں چل سکتا جب تک اندرونی اور بیرونی انتشار ختم نہ ہو۔ جس کو عوام ووٹ دیں اس کو دوسرے سپورٹ کریں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا جس ملک کے چیف جسٹس انصاف نہ کر سکیں اور نیچے سے اٹھا کر جج بنانا چاہیں تو کام کیسے چلے گا.

شاہد خاقان عباسی نے کہا طاقت صرف اکیڈمک ایکسائز ہے طاقت ان تین کے علاوہ کہیں اور ہے ،ججوں اور ان کے فیصلوں کا سب کو مورد الزام ٹھہرانا چاہئے ، کم از کم یہ ضرور کہناچاہئے کہ ہم غلط تھے۔

انہوں نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکال دیا گیا۔ عدالتوں کو اپنے آپ نے پوچھنا چاہئے کہ کیا ایسے فیصلے عوام کی بہتری کیلئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ اعلیٰ عدالت نیب آرڈیننس میں ترامیم کے حوالے سے کیس سن رہی ہے۔ نیب آرڈیننس سے پاکستان کے لوگ کہاں تک متاثر ہوئے۔

 انہوں نے کہا کہ جب تک نیب کا ادارہ ہے پاکستان کام نہیں کر سکتا۔ سابق سنیٹر افراسیاب خٹک نے کہا گلگت اور بلوچستان کے ساتھ کالونیوں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔

 اس سٹیٹس کو ختم کرنے کیلئے بڑی تبدیلیاں لانی ہونگی ۔ افراسیاب خٹک نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ نے سپریم کورٹ کو سکینڈلائز کیا۔سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ہم سب کٹھ پتلیاں ہیں۔

تمام اسٹیک ہولڈرز میں یہ اخلاقی جرات ہونی چاہئے کہ وہ کہیں کہ وہ غلط تھے اور یہ سب 1947ء سے شروع ہوناچاہئے۔

 1973ء کے آئین کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے ملک سے کھیل کھیلا اور آٹھ مختلف تجربات کئے۔ کبھی ملٹری ڈکٹیٹر شپ، کبھی ون ویونٹ، کچھ صدارتی نظام، پھر غیر جماعتی الیکشن، پھر مجلس شوریٰ، پھر چیف ایگزیکٹو اور کنٹرولڈ جمہوریت ، اگر ایسے تجربات کریں گے تو ہم آئین کو کیا دوش دیں گے۔

انہوں نے کہا 75سال سے ہم اس تذبذب میں ہیں، پارلیمنٹ بے سود ہو چکی اور اب یہ ڈیبیٹنگ کلب بھی نہیں رہی ،قانون سازی آرڈیننسز کے ذریعے ہو رہی ہے.

گرینڈ نیشنل ڈئیلاگ ہونا چاہئے جس میں تمام پولیٹکل اسٹیک ہولڈرز کے درمیان معاہدہ ہو اور دوسرا انٹرا انسٹی ٹیوشنل ڈائیلاگ ایگزیکٹو، جوڈیشری اور پارلیمینٹ کے درمیان ہونا چاہئے۔

 رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ ہم بحیثیت قوم اسٹرکچر نہیں بنا سکے جو کہ سب سے بڑی ناکامی ہے، ہائبرڈ جمہوریت کا فیز 2008ء سے شروع ہوا ، سویلین سپر میسی کیلئے سیاست دانوں کو لڑائی بند کرنا ہو گی۔

سیاست دانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ جمہوری کلچر کا حصہ بنانا ہے یا کہ ہائیبرڈ جمہوریت کا۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ سب نے اختیارات کی تقسیم کے ساتھ زیادتی کی ،پارلیمنٹ خود مختار ہونی چاہئے اور قوانین پر باقاعدہ عملدرآمد ہوناچاہئے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں جب بحث ہوئی کہ سپریم کورٹ کو جوڈیشل ریویو کی اجازت دینی چاہئے تو سب نے کہا کہ ہم عوام کے منتخب شدہ لوگ ہیں جبکہ ججز سلیکٹیڈ لوگ ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ جب مشرف گیاتو ہم سمجھے کہ حقیقی جمہوریت آئے گی لیکن میڈیا ابھر کر سامنے آیا اور ججوں کی مقبولیت بڑھی جس کی وجہ سے آج عدلیہ مضبوط ہوئی.

 انہوں نے کہ نظریہ ضرورت کے تحت مشرف کو قبول کیا گیا لیکن عدلیہ پر پورا الزام نہیں آتا کیونکہ اگر سول سوسائٹی نے عوام کو آگاہی دی ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔

ٹرانس جینڈرز کے حقوق اور انہیں درپیش خطرات پر سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ٹرانس جینڈرز بل کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، مل بیٹھ کر بل کو اسلام کے مطابق کر لیں تو کوئی حرج نہیں،نایاب علی نے کہا سب جماعتوں نے مل کر یہ قانون بنایا، اب کہہ رہے ہیں کہ قانون کا علم نہیں تھا، اسے اب غیر اسلامی اور غیر شرعی کہا جا رہا ہے، اس سے ہماری زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

حیدر فاروق مودودی نے کہا کہ میری رائے کامران مرتضیٰ سے مختلف ہے۔مہلاب شیخ نے کہا ٹرانس جینڈر قانون صرف برابری کا حق دیتا ہے، کچھ اضافی نہیں دیا جا رہا۔

ریما عمر نے کہا پاکستان کا آئین ٹرانس جینڈر سمیت ہر شہری کو برابر حقوق دیتا ہے۔

پارلیمانی سیکریٹری ناز بلوچ نے کہا جرمن واچ رپورٹ کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ملکوں میں 8 ویں نمبر پر ہے۔

گلگت بلتستان کے ایکٹیوسٹ بابا جان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے متعلق نہ سوچا تو یہ علاقہ بنجر ہو جائیگا۔

اسکولوں کے نصاب کے حوالے سے منعقدہ موضوع پر اظہار خیال کرتےمصنفہ کشور ناہید نے کہا کہ بلوچستان کے اسکولوں میں تاریخ، جغرافیہ دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے.

 برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان دو حصوں میں تھا، بنگلا دیش کا پہلا نام کیا تھا؟ میں نے بچیوں سے پوچھا، کوئی نہیں جانتا تھا، بلوچستان میں بدھا کون تھے، اس بارے میں سلیبس میں شامل نہیں۔

 بھارتی مصنفہ ریٹا منچندہ نے کہا کہ ریاست کرناٹکا کے ایک اسکول میں حجاب کا مسئلہ سامنے آیا، طالبہ کو اسکول آنے سے روک دیا گیا بلکہ امتحان میں بھی نہیں بیٹھنے دیا گیا ، پاکستان اور بھارت کے وجود میں آنے کے بعد تعلیم کے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔

 کشور ناہید نے کہا کہ تعلیمی نصاب میں جدیدت پیدا کرنے کی ضرورت ہے مذہبی لحاظ سے بھی ہم اجتہاد سے گھبراتے ہیں جو ہماری تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجہ ہے۔

معروف اسکالرڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں فی کس ایک طالب علم پر جو خرچ ہو رہا ہے کم و بیش بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی اتنے ہی پیسے خرچ ہو رہے ہیں تاہم ان کے طلبہ کا معیار ہم سے بہتر ہے۔

 انہوں نے کہا کہ دنیا کی یونیورسٹیز اورتعلیمی اداروں میں ہمیں پاکستانی اساتذہ نظر نہیں آتے ، وجہ یہ ہے کہ ہم نے جدیدیت کے راستے روک دیئے ہیں ۔ پرویز ہود نے کہا کہ ہماری ڈیفنس انڈسٹری اتنی بڑی ہے لیکن وہ بھی انحطاط کا شکار نظر آتی ہے۔

اہم خبریں سے مزید