کینیا میں صحافی و اینکر ارشد شریف کے قتل کے کیس میں ’جیو نیوز‘ اہم نئے شواہد سامنے لے آیا۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کینیا نے ’جیو نیوز‘ کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صحافی و اینکر ارشد شریف پر انتہائی قریب سے گولیاں چلائی گئیں۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کینیا کا کہنا ہے کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ گولیاں چلتی گاڑی پر نہیں بلکہ کھڑی گاڑی پر برسائی گئیں۔
ارشد شریف کی گاڑی کی فوٹیج ’جیو نیوز‘ نے حاصل کر لی، گاڑی پر 9 گولیاں چلائی گئیں، پولیس کی طرف سے چلائی گئی 6 گولیوں کا رخ ارشد شریف کی طرف تھا۔
خرم احمد گاڑی میں ارشد شریف کو ٹنگا مارکیٹ سے وقاراحمد کے فارم ہاؤس لے کر گئے، پولیس نے کامو کورو کے علاقے میں مگادی روڈ پر گاڑی پر گولیاں چلائی تھیں۔
گاڑی پر گولیوں کے 9 نشانات ہیں، مسافر سیٹ پر بیٹھے ارشد شریف کو 2 گولیاں لگیں ۔
گاڑی پر 3 گولیاں اس طرف فائر کی گئیں جس طرف خرم احمد بیٹھے تھے مگر وہ محفوظ رہے۔
پہلی گولی سائیڈ کے شیشے سے گزر کر ارشد شریف کے سر میں لگی، دوسری گولی گاڑی کے بونٹ کی طرف سے فائر کی گئی جو ان کے سینے پر لگی۔
ہر طرف سے برستی گولیوں سے ڈرائیور کیسے محفوظ رہا؟ پاکستانی تفتیش کار اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف کریمنل انویسٹی گیشن سے رابطے میں ہیں۔
جس روڈ پر فائرنگ ہوئی اس کی نگرانی جنرل سروس یونٹ کر رہا تھا، یہ بات بھی واضح نہیں ہو سکی کہ سڑک بند کرنے کے لیے پولیس نے پتھروں کا استعمال کیوں کیا تھا۔
پولیس کی جانب سے یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ اغواءہونے والے بچے کی بازیابی کے لیے کار پر فائر کھولا تھا تاہم پولیس کو مطلوب کار اور خرم احمد کی گاڑی میں ماڈل اور رجسٹریشن نمبر کا فرق تھا۔
دوسری جانب ارشد شریف کی موت کی تحقیقات کے لیے پاکستانی ٹیم جلد دبئی جائے گی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ تحقیقات کے لیے پاکستانی ٹیم کا اگلے ہفتے متحدہ عرب امارات پہنچنے کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم دبئی میں ارشد شریف کے دوستوں اور رابطہ کاروں سے پوچھ گچھ کرے گی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی ٹیم ارشد شریف کے دبئی میں ملاقاتیوں سے بھی تفتیش کرنے کی کوشش کرے گی۔
کینیا میں موجود صحافی ارشد شریف کو 22 اور 23 اکتوبر کی درمیانی شب گاڑی میں جاتے ہوئے کینین پولیس نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
کینیا پولیس کی جانب سے ارشد شریف کی موت کو شناخت کی غلطی قرار دے کر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران پر مشتمل ٹیم صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے 28 اکتوبر کو کینیا گئی تھی۔
مذکورہ ٹیم ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد کینیا سے پاکستان واپس پہنچ چکی ہے۔