حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن ہمارے منہ سے الفاظ نکلنے کی دیر تھی، یعنی پریشان حال انسان کسی دیرینہ دوست سے اپنے احوال و کیفیت بیان کر ہی دیتا ہے۔سننے والا بات آئی گئی کر دے یا پھر توجہ سے سن کر مفید مشورہ دیدے لیکن پریشان حال اپنی کیفیت ،اپنی اپنی پریشانی سنا کرمطمئن ہو جاتا ہے کہ شکر ہے دل کا بوجھ کم ہوا۔ مگر ہوا یہ کہ جس دوست کو اپنی ذہنی حالت بتائی تو وہ بات نہ آئی گئی ہوئی، نا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑائی گئی، نہ ہی سنی ان سنی کی گئی بلکہ بات کو غور سے سن کر پکڑ لیا گیا، پلو سےباندھا لیا گیا، میرے منہ سےنکلی میری کیفیت کو پریشانی کو بھانپ کر میری دوست مجھ سےبھی زیادہ پریشان تو کیا ہلکان ہو گئی پھر ببتا سننے کے بعدسے جلے پائوںکی بلی کی طرح ٹک کر نہ بیٹھی! لگی پھر ہمارے لئے معالج ڈھونڈنے، پیر فقیر، پہنچے ہوئے بابے، جادو کا توڑ کرنے والے، سفلی و کالے علم کے ماہر یقینی جڑ سے اکھاڑ کر توڑ کرنے والے عامل اور روحانی علاج کے صوفی بزرگ سے لیکرہر قسم کے عملیات کے ماہر تک دیکھ لیئے۔ ہم نے تو اپنی کیفیت یوں بیان کی تھی کہ حساسیت بڑھتی جار ہی ہے، تھکن رہتی ہے ذہنی و جسمانی، کسی کام پر توجہ پوری طرح نہیں، طبیعت میں ٹھہرائو آکر نہیں دے رہا، نیند تقریباً تین یا چارگھنٹے کی رہ گئی، چڑچڑاپن ہے، پٹھوں میں تنائو اور شدید درد رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔یہ کیفیات بیان کرنے کی دیر تھی کہ دوست نے پیروں، عاملوں اور روحانی معالج سے لیکر جادوگروں اور توڑ کرنے والوں کا ٹیلی فونک رابطہ کرادیا بلکہ ہمارے نا چاہنے کے باوجود ہمارا نمبر انہیں دیا اور سبھی نے واٹس ایپ پرفکر مندانہ ہمدردی شروع کردی۔ توڑ کرنے والوںعاملوں کے نت نئے سوالات کہیںہمیںزچ کرتے، کہیں محظوظ کرتے اور کہیں پریشان کرتے۔ اچھا یہ بھی دیکھئے کہ دوست سےلیکر پیروںعاملین تک کو یقین تھاکہ یقیناً ہم جادو کا توڑ کر سکتے ہیں۔ ان سب نے ہماری حالیہ کیفیت سنتے ہی حساب لگالیا تھا کہ’’ ہم سحرمیں ہیں اور جادو برحق ہے‘‘ ۔اسکے ساتھ ہی وہ جملہ بھی سننے کو ملا جو ہم مسلمانوںکیلئے یقین کا باعث بن جاتا ہے کہ ’’جادو سے انکار نہیں، جادوبرحق ہے وہ نبیوں پیغمبروںپر بھی ہوا ہے‘‘۔ ہم نے اپنی دوست سے پوچھا کہ آپ نے کیسے اندازہ لگایا کہ ہم پر کسی نے تعویز کرائے ہیں۔ ہم نے تو شاید اپنی طبیعت کی خرابی کی کیفیت بیان کی تھی اور آپ نے اندازہ لگالیا کہ ہم خدانخواستہ کسی جادو کے اثر میںآگئے ہیں۔دوست نے جواب دیا کہ ’’اسی کو جادوکہتے ہیں۔ تمہارےساتھ کچھ بھی اچھا نہیں چل رہا! پریشانیاں، رکاوٹیں، نیند ندارد، پٹھوں میں کھنچائو، چڑچڑاپن، چھوٹی چھوٹی باتوں پر کڑھنا، حسن وصحت خراب کرنا، اپنے سے غفلت برت کر دوسروں کے دکھ درد پر کڑھنا، چائے کافی بار بارپیتے رہنا، غیرمعمولی طور پر حساس اور رنجیدہ رہنا، یہ سب جادو نہیںیا اسکی علامات نہیں تو کیا ہے؟ اب ذرا اسکا توڑ کرانے دو کئی عامل بتارہے ہیںکہ یہ جادو ہی کرایا ہے کسی نے تم پر۔ اب پیر بابا جو کچھ بھی پوچھیں تو جواب دینا‘‘۔ اب پاکستان بھرکے عاملوں نے فون پر سوال وجواب کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ سبھی وثوق سے کہہ رہے تھے کہ یہ جادوہے۔ ایک نے سوال کیا کہ کیا آپ کی پہنی قمیض وغیرہ کسی کے پاس تو نہیں گئی؟ ہم نے جواب دیا کہ قمیض خود سے توچل کر نہیں گئی بلکہ میری دوست اپنے ٹیلر کو ڈیزائن دکھانے کو لے گئی تھیں پاکستان باباجی نے منہ میں ’’ہونہہ‘‘ کہا، جیسے وہ میری دوست پر شک کریں گے۔ وہی پوچھا کہ وہ آپ کی کیسی دوست ہے؟ ہم نے جواب دیا بہت اچھی ہے مگر میرے جواب سے انہیں تسلی نہ ہوئی دوبارہ پوچھا کہ وہ آپ سے حسد جلن تونہیں رکھتی یاپھر کبھی آپ سے تکرار تو نہیں کی اس نے؟ ہم نے کہا کہ وہ میری نہ صرف اچھی دوست ہے بلکہ ہمدردبھی ہےوہ صرف دو ہفتوںکیلئے پاکستان گئی تھی وہ بھی ضروری کام سے اور دو ہفتوںمیں وہ مجھ پر عمل کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتی یا عامل ڈھونڈے جادو کو! ابھی ایک عامل کو جواب دیا تودوسرابھی انوکھا سوال پوچھنے کی حماقت لئے تھا اب پوچھاگیا کہ آپ اپنی زلفیں کہاںپھینکتی ہیں؟ اس سوال کی توقع نہیں تھی ہمیں اور ہمارا جی چاہا کہ کہہ دیں کہ لوگوں کے شانوں پر رکھتے ہیں (ہا ہا ہا ہا) مگر یاد آیا کہ ہم تو اپنے گیسو جمع کرکے دریا میںپھینکتے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ دیکھ لیجئے پاکستان میں جو کتابیںآپ چھوڑ کر آئی ہیں کہیں ان میںتو آپ کے بال غلطی سے نہ رہ گئے ہوں کیونکہ عموماً خواتین بال ادھر ادھر پھینکنے کی بجائے کتابوں میں رکھ دیتی ہیں؟ اللہ سر بھناگیا یقین نہیں تھا کہ پیر فقیر کسی پولیس کے تفتیشی آفیسر سے بھی زیادہ ذہین ہونگے۔ بھلا میری چیزیں میرے خونی رشتوں کے پاس ہیں تو کیا وہ انہیں میرےپر جادو کرانے کیلئے استعمال کرینگے۔ ماضی میں جب ہم تیرہ سال کے تھے تو عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی سیڑھیاں چڑھتے ایک پہنچی ہوئی فقیرنی نے ہماری والدہ کو روک کر اورہمیںغور سے گھورتے ہوئے کہا کہ آپ کی بیٹی پر کسی نے جادو کرا رکھا ہے اور ہمیں یاد ہے کہ اسکے بعدسے ہماری والدہ محترمہ ہماری طرف سے فکرمند رہنے لگیں تھیں۔ یعنی اگرہم پر جادو ہونا ہی ٹھہرا تو پھر یہ نوعمری سے ہی ہم پر کسی نے کرارکھا ہے۔ ہمارا ایمان اتنا کمزور نہیںکہ ہمایسی فضولیات پر یقین رکھیں جبکہ ہمیں نفسیات کے علم کی معمولی سی شدبد ہے۔ ہم اپنی نفسیات کو اچھے سے سمجھتے ہیںکہ کیا معاملہ ہے یہ تمام علامات جوپیدا ہوئی ہیں وہ ہمارے بے حد حساس ہونے کی وجہ سے ہیں آئے روز کے نت نئے حادثات نے ذہن میںکھلبلی مچا رکھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پوسٹ ٹرامٹیک اسٹریس ڈس آرڈر ہے(post traumatic stress disorder) یا وہ علامات ہیں مگر کسی جادوسے بھی نہیں جوڑا جا سکتا اس کیفیت کو کیونکہ صحت آپ کی خراب بے تحاشہ چائے اور کافی کے استعمال سے بھی ہوسکتی ہے اور اسی وجہ سے ہماری نیند بھی اڑ گئی اور طبیعت میں بے چینی ہو گئی ہم سحر میں نہیں جناب۔