اسلام آباد (تجزیہ / ارشاد بھٹی) آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل قمر جاوید باجوہ کا دور تیزی سے اپنے اختتام کو بڑھ رہا ہے۔ جس وقت پاکستان کمان کی تبدیلی کی تیاری کر رہا ہے اس وقت یہ ضروری ہے کہ موجودہ آرمی چیف کے 6؍ سالہ دور کا جائزہ لیا جائے کیونکہ جنرل باجوہ کی جانب سے اپنے دور میں کیے گئے فیصلوں کے نہ صرف مسلح افواج بلکہ مجموعی طور پر ملک پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل باجوہ کو ایک موضوع کو طور پر لیا جائے تو ان کئی مباحثے بھی ہوتے ہیں تو ان پر تنقید بھی ہوئی ہے۔ جنرل باجوہ کے دور میں فوج کو اس کے سیاست میں کردار کی وجہ سے سخت اسکروٹنی کا سامنا رہا جبکہ جنرل باجوہ کو بھی سیاست دانوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی سخت باتوں کا سامنا رہا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جنرل باجوہ کچھ مثالیں قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ عمومی طور پر جس معاملے کی وجہ سے مسلح افواج کو تنقید کا سامنا رہتا ہے وہ ہے دفاعی بجٹ۔ جنرل باجوہ کے دور میں دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہ مسلح افواج کی قیادت کی جانب سے کیا جانے والا محتاط فیصلہ تھا۔ جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھیں تو مسلح افواج کے بجٹ میں کمی آئی جو 1970ء کی دہائی میں 6.5؍ فیصد تھا جو 2021ء میں 2.54؍ فیصد تک آ گیا۔ مالی سال 2021-22ء کے دوران دفاعی سروسز کو 8487؍ ارب روپے کے مجموعی بجٹ وسائل میں سے 1370؍ ارب روپے دیے گئے جو مجموعی بجٹ وسائل کا 16؍ فیصد ہے۔ اس 16؍ فیصد رقم میں سے پاک فوج کو 594؍ ارب روپے ملتے ہیں یعنی مجموعی بجٹ وسائل کے حساب سے دیکھیں تو پاک فوج کو 7؍ فیصد رقم ملتی ہے۔ 2019ء میں بھی پاک فوج نے ملکی معیشت کی خاطر100؍ ارب روپے کم لیے تھے۔ اگرچہ پاک فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے لیکن اخراجات کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ بہت کم ہیں۔ امریکا اپنے ہر فوجی پر تین لاکھ 92؍ ہزار، سعودی عرب تین لاکھ 71؍ ہزار، بھارت 42؍ ہزار، ایران 23؍ ہزار جبکہ پاکستان اپنے ہر فوجی پر صرف ساڑھے 12؍ ہزار ڈالرز سالانہ خرچ کرتا ہے۔ کم دفاعی بجٹ کے باوجود پاک فوج نے اپنے معیار پر سمجھوتا نہیں کیا اور آج گلوبل فائر پاور انڈیکس میں طاقتور ترین افواج میں پاک فوج کا نواں نمبر ہے۔ مالی سال 2020-21ء میں پاک فوج نے سرکاری خزانے میں براہِ راست ٹیکسوں کی مد میں 28؍ ارب روپے جمع کرائے۔ فوجی فائونڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ جیسے ویلفیئر ادارے اپنی آمدنی کا 73؍ فیصد حصہ شہداء، جنگ کے زخمیوں، معذور فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے ہیں۔ ان اداروں کے 17؍ فیصد ملازمین ایسے ہی فوجیوں کے اولاد ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، یہ ادارے سویلینز کو بھی ملازمت دیتے ہیں۔ 2021ء میں صرف فوجی فائونڈیشن نے مختلف فلاحی سرگرمیوں کی مد میں ایک ارب روپے خرچ کیے۔ فوجی گروپ ملک کے سب سے بڑے ٹیکس دہندہ اداروں میں شامل ہے جس نے 2020-21ء میں ٹیکسوں، ڈیوٹیز اور لیویز کی مد میں قومی خزانے میں 150؍ ارب روپے جمع کرائے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں فوجی فائونڈیشن ٹیکسوں کی مد میں سرکاری خزانے میں ایک ہزار ارب روپے جمع کرا چکا ہے۔ اسی طرح ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) ایک ایسا ادارہ ہے جو پاک فوج سے کوئی مالی معاونت وصول نہیں کرتا۔ 8؍ ڈی ایچ ایز کے ملازمین کی تعداد 15؍ ہزار ہے اور ان میں سے 30؍ سے 35؍ فیصد سابق فوجی ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران ڈی ایچ ایز نے ٹیکسوں کی مد میں 20؍ ارب روپے جمع کرائے ہیں۔ این ایل سی کے ساڑھے 6؍ ہزار ملازمین ہیں اور یہ ادارے گزشتہ پانچ سال میں 6؍ ارب روپے ٹیکس جمع کرا چکا ہے۔ ایف ڈبلیو نامی ادارہ مختلف شعبہ جات میں کام کرتا ہے جس میں سڑکوں، ریلوے لائنوں، فضائی پٹیوں، ڈیموں، کینال اور بیراجوں، ٹنل کی تعمیر، کان کنی اور رہائشی و صنعتی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔ کرتاپور بارڈر کراسنگ، مکران کوسٹل ہائی وے، سکھر بیراج کی مرمت، وغیرہ جیسے کام بھی اسی ادارے نے کیے ہیں۔ اسلام آباد میں وبائی امراض کے مریضوں کیلئے اسپتال کی تعمیر 40؍ دن میں اسی ادارے نے کی تھی۔ ایف ڈبلیو کا تکنیکی تعلیم کا ادارہ (ایف آئی ٹی ای) 34؍ ہزار طلبہ و طالبات کو تربیت دے چکا ہے۔ پاکستان کی معاشی فلاح کیلئے پاک فوج نے کارکے کاراڈینز یوٹیرم تنازع طے کیا تھا۔ اس نام کی ترک کمپنی کرپشن میں ملوث تھی اور سویلین و ملٹری قیادت پر مشتمل کور کمیٹی نے تحقیقات سے پتہ لگایا کہ یہ کمپنی ترکی، سوئٹزرلینڈ، لبنان، پانامہ اور دبئی میں بھی کرپشن کر چکی ہے۔ یہ شواہد عالمی ٹریبونل میں پیش کیے گئے جہاں پاک فوج نے انتہائی مناسب انداز سے یہ تنازع طے کرکے پاکستان کے 1.2؍ ارب ڈالرز بچائے جو عالمی ٹریبونل پر پاکستان پر عائد بطور جرمانہ عائد کیے تھے۔ اگر یہ تنازع طے نہ ہوتا تو پاکستان کی جی ڈی پی دو فیصد تک سکڑ جاتی۔ 14؍ اگست کو صدر پاکستان نے آئی ایس آئی کے تین افسران کو ستارۂ امتیاز دیا جنہوں نے یہ تنازع طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی شاندار خدمات کی وجہ سے ہی پاکستان ریکو ڈک کا تنازع طے کرنے میں کامیاب رہا اور ان ہی کی ذاتی کاوشوں سے پاکستان 11؍ ارب ڈالرز کے ہرجانے سے بچ گیا۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات گزشتہ کچھ برسوں سے زیادہ گہرے ہوئے ہیں اور جنرل باجوہ کے ویژن نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سی پیک کو درپیش خطرات سے پاک فوج زبردست انداز سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے جبکہ کئی سازشوں کو بھی ناکام کیا گیا ہے۔ چائنیز وزیر برائے نیشنل ڈیفنس جنرل وائی فینگ ہی نے پاک فوج کی مخلصانہ کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔ چائنیز دفتر خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کی قیادت میں پاکستان کی سالمیت کو بالا اور مستحکم رکھنے کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے گی اور علاقائی امن و استحکام کیلئے کوششیں جاری رکھے گی۔ جنرل باجوہ پاک فوج کے غیر معمولی قائد ہیں۔ 2020ء میں جب پاکستان کو کورونا کی وبا کا سامنا تھا، جنرل باجوہ کی کمان میں پاک فوج نے اس بیماری سے نمٹنے کیلئے قابل تحسین اقدامات کیے۔ این سی او سی کا قیام سویلین اور عسکری وسائل کو یکجا کرکے بیماری سے موثر انداز سے نمٹنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا۔ آرمی چیف کی ہدایت پر بڑے فوجی اسپتالوں میں کورونا ٹیسٹنگ لیبارٹریاں قائم کی گئیں جبکہ ایس او پیز پر عمل کیلئے این سی او سی اور وزارت داخلہ کے اشتراک سے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کیا گیا۔ 2017 میں کراچی کی اربن فلڈنگ کے دوران 188؍ فوجیوں، پانی نکالنے کی 21 مشینوں (پمپ) اور 30؍ کشتیوں کو فوراً خدمات کی انجام دہی کیلئے روانہ کیا گیا۔ 2018ء میں لاہور کی اربن فلڈنگ کیلئے 200 فوجیوں نے 26 پمپس اور 19 کشتیوں کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ اسی طرح 2020ء میں سندھ، پنجاب اور کے پی میں سیلاب زدہ علاقوں میں خدمات انجام دینے کیلئے 4؍ ہزار فوجیوں نے 100؍ پمپس اور 105؍ کشتیوں کی مدد سے خدمات انجام دیں اور 10؍ ہزار لوگوں کی جان بچائی۔ 50؍ شیلٹر اور 75؍ میڈیکل کیمپ قائم کیے گئے۔ ٹڈی دل سے نمٹنے میں بھی پاک فوج نے زبردست کردار ادا کیا۔ نیشنل لوکسٹ کنٹرول سینٹر قائم کیا گیا جبکہ این ڈی ایم اے کو بھی اس تباہی سے نمٹنے کیلئے شامل کیا گیا۔ ٹڈی دل کے حملے نے خوراک کی سیکورٹی کو درپیش خطرات سے نمٹنے میں حکومت کی تیاریوں کو بے نقاب کر دیا۔ فصلوں اور کھیتوں پر اسپرے کیلئے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے پاس 1990 کی دہائی میں 20؍ سے 22؍ طیارے تھے اور آج ان کی تعداد صرف 3؍ ہے۔ فضائیہ نے اپنے طیارے اور چار ہیلی کاپٹرز کی مدد سے ٹڈی دل کیخلاف آپریشن کیا۔ 10؍ ہزار فوجیوں نے اس کارروائی میں حصہ لیا جس میں ٹریکٹر اور کار پر نصب مشینوں کی مدد سے بھی فصلوں پر اسپرے کیا گیا۔ اس کے علاوہ، مختلف ملکوں کے ساتھ جنگی مشقوں کی وجہ سے قومی اور معاشی سطح پر پاکستان کے کئی ملکوں کے ساتھ تعلقات مستحکم ہوئے۔ کامیاب فوجی تربیت اور مشقوں کی وجہ سے روس کے ساتھ تعلقات بحال ہوئے۔ ایسی ہی کامیابیوں میں پاک اردن فجر الشرق جنگی مشقیں، نائیجیرین فورسز کے ساتھ جنگی مشقیں، پاک سعودی مشقیں، پاک چین مشقیں، برطانیہ، بحرین، ترکی، مراکش کے ساتھ جنگی مشقیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاک بحریہ کی امن 21 مشقوں میں نیٹو کے اتحادیوں جیسا کہ امریکا اور برطانیہ نے بھی روس کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیا جن میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی مشق کی گئی۔ اس کے علاوہ، امریکا کے ساتھ فالکن ٹالون 2022ء فضائیہ مشقیں بھی کی گئیں۔ اس کے علاوہ، جنرل باجوہ کی قیادت میں پاک فوج نے گزشتہ 6؍ سال کے دوران کئی اہم بین الاقوامی معاملات و مسائل حل کیے ہیں۔ کرتاپور راہداری کا معاملہ ان میں سے ایک ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا مسئلہ حل کرنے کیلئے بھی جنرل باجوہ نے اہم کردار ادا کیا اور پاکستان گرے لسٹ نے نکلنے میں کامیاب رہا۔ قطر، سعودی عرب، امریکا، برطانیہ اور یورپ کیساتھ تعلقات میں استحکام و مضبوطی لانے کیلئے بھی فوجی قیادت نے اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے غیر ملکی زر مبادلہ پاکستان آیا۔ فوجی قیادت کی وجہ سے ہی آئی ایم ایف، سعودی عرب اور دیگر ممالک پاکستان کو قرضہ دینے پر رضامند ہوئے جبکہ قطر سے گیس کا ٹھیکہ بھی ملا۔ افغان بحران سے نمٹنے میں بھی فوجی قیادت نے اہم کردار ادا کیا اور امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا۔ اس کے علاوہ، کے پی میں بھی قبائلی علاقوں میں انضمام کا معاملہ فوجی قیادت کی وجہ سے ہی طے پایا۔ مغربی بارڈر پر باڑ لگانے اور ملک کو دہشت گرد حملوں اور عسکریت پسندوں سے بچانے کی کامیابی کا سہرا بھی پاک فوج کی قیادت کے سر ہے۔