• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ذکر ہے، اس رنگا رنگ خُوب صورت محفل کا، جہاں ہر طرف موسیقی، رقص، فنون اور ادب سے جُڑی شخصیات کی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ کہیں عالمی شہرت یافتہ ڈراما نگار، مصور اور کمپیئر انور مقصود کے کاٹ دار جملوں کی بارش ہورہی تھی، تو کہیں کشور ناہید، تقریب کے کمپیئر خالد ملک کی غلط اردو پر بھری محفل میں کلاس لے رہی تھیں،تو ایک جانب امیر خسرو کے کلام پر شان دار انداز میں اعضاء کی شاعری پیش کی جارہی تھی۔ 

ساتھ ساتھ شوبزنس کے چمکتے ستارے فیصل قریشی، گلوکارہ ٹینا ثانی، مُحب مرزا، بہروز سبزواری، علی خان، خوش بخت شجاعت، ٹیپو شریف، اصغر ندیم سید اور یاسرا رضوی کے ساتھ مداحوں کا سیلفیاں بنانے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کی رنگا رنگ تقریب اُداس چہروں پر مسکراہٹوں کے پُھول بکھیردیتی ہے۔ دسویں یو بی ایل لٹریچر اینڈ آرٹس ایوارڈز کی تقریب کا انعقاد کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا۔ اس بار لٹریچر ایوارڈز کے ساتھ فن کے شعبے میں بھی ایوارڈز دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جب کہ مستقبل میں یہ ایوارڈز موسیقی، اداکاری اور گلوکاری کے شعبوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو بھی دیے جائیں گے۔ 

اس سال بھی ڈراما اسکرپٹ کی کیٹیگری کو متعارف کروایا گیا ہے، جو اس کے سابقہ ایوارڈز کا حصہ نہیں تھی ، اس طرح سے لٹریچر اینڈ آرٹس ایوارڈز ادب اور فنون کے شعبوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا سب سے اہم پاکستانی ایوارڈ بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سال ایوارڈز کی تیرہ کیٹیگریز کے لیے پاکستان بھرسے سینکڑوں نامزدگیاں موصول کی گئیں۔ 

تقریب کے دوران، ان میں سے ہر ایک کیٹیگری کے فاتحین کو ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ایوارڈز اور تعریفی اسناد سے نوازا گیا۔ اردو کیٹیگریز کے لیے جیوری ممبران میں ڈاکٹر اصغر ندیم سید‘ ڈاکٹر ارفع سیدہ‘ ڈاکٹر انوار احمد‘ کشور ناہید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر شامل تھے، جبکہ انگلش کیٹیگریز کے جیوری ممبران میں غازی صلاح الدین اور منیزہ شمسی شامل تھے۔ 

ثقافتی رنگ برساتی اس رنگین شام کا آغاز ریڈ کارپٹ کی پرہُجوم سرگرمیوں سے ہوا، جس کی میزبانی خالد ملک اور یاسرا رضوی نے کی، اس موقع پر ایک ویڈیو پریذنٹیشن بھی دی گئی، بعد ازاں صدر یوبی ایل شہزاد جی دادا نے خطبہ استقبالیہ دیا۔ اس سال دیے جانے والے ایوارڈز کی دس کیٹیگریز کا اعلان کےساتھ اردو اور انگریزی کیٹگریز میں جیوری ممبران کا اعلان کیا ۔ اس کے بعد انعامات کی تقسیم کا آغاز ہوا۔ ایوارڈز کی پہلی کیٹیگری بچوں کے اردو اور انگریزی ادب کی تھی۔ 

یہ ایوارڈ پیش کرنے کے لیے ڈاکٹر انوار احمد اور اداکار فیصل قریشی اسٹیج پر آئے، بعد ازاں ننھی شہزادی توصل شاہ کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے چند مشہور شاعروں کے اشعار سُناکر محفل میں بھرپور توجہ حاصل کی، سب حیران تھے کہ اتنی کم عمر بچی کو اردو کے نامور شعراء کا کلام یاد ہے، وہ بہت اعتماد کے ساتھ کلام پیش کررہی تھیں۔ دوسری کیٹیگری اردو میں ترجمہ اور علاقائی زبانوں کے ادب پر تھی، جسے پیش کرنے کے لیے ناصر ادیب نیئر اور خوش بخت شجاعت اسٹیج پر آئیں۔ 

تیسری کیٹیگری آن لائن لٹریچر ایوارڈ کی تھی، جسے ڈاکٹر ارفع سید زہرہ اور احمد علی شاہ نے پیش کیا۔ اس مرحلے پر حاضرین کی تفریح کے لیے اظہر حسین عزمی اسٹیج پر آئے۔ چوتھی کیٹیگری نئے یعنی آنے والوں کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے انگریزی اور اردو ڈیبیو کے لیے ایوارڈزپیش کرنے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر ارفع سید اور کو مدعو کیا گیا ۔اس موقع پر ذیشان محبوب اور نازش شاعری پیش کرنے کے لیے آئے۔ کلاسیکل ڈانس کی پرفارمنس پیش کرنے کے لیے کیف غزنوی ساتھی فن کار کے ساتھ اسٹیج پر آئیں، انہوں نے امیر خسرو کے مقبول کلام پر اعضاء کی شاعری پیش کی ۔ اس پرفارمینس کے بعد ڈراما اسکرپٹ کیٹیگری تھی۔

اس ایوارڈ کو پیش کرنے کے لیے اصغر ندیم سید کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا ۔چھٹی کیٹیگری اردو اور انگریزی نان فکشن ایوارڈز اصغر ندیم سید نے پیش کیا ۔ ساتویں کیٹیگری اردو شاعری کی تھی، جسے پیش کرنے کے لیے کشور ناہید پر آئیں ۔آٹھویں کیٹیگری اردو فکشن کی تھی، نویں کیٹیگری ”انگریزی میں عمدہ عالمی ادب “کی تھی،جسے اس سال متعارف کرایا گیا ہے، یہ ایوارڈ پیش کرنے کے لیے منیزہ شمسی، سابق وفاقی وزیرجاوید جبار اور خوش بخت شجاعت اسٹیج پر آئیں۔ یہ ایوارڈ مرحوم ذوالفقار غوث کو بعد از مرگ دیا گیا۔

اس ایوارڈ کا اعلان منیزہ شمسی نے کیا، جسے مرحوم کی جانب سے عمران افضل نے وصول کیا ۔لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کے لیے صدر یوبی ایل شہزاد داد کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا، اس اعزاز کے حق دار معروف مصنف، اسکالر اور ڈراما نگار انور مقصود قرار پائے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ 75 برسوں سے پاکستان کے لیے دُعا کررہے ہیں کہ حالات بہتر ہوجائیں، ایسا لگتا ہے کہ ہماری دعاؤں میں اثر ختم ہوگیا ہے، میں نے زندگی کی پہلی جاب بینک میں کی۔ دو بسیں بدل کر بینک جاتا تھا، چھ مہینے میں مجھے بینک سے نکال دیا گیا تھا۔‘‘ 

تقریب میں محمد احمد قاضی، احمد سلیم ،صابر ظفر، سعید نقوی،تسنیم جعفری، محمد شعیب، خدیجہ کنجھار، قاضی علی عبدالحسن، فصیح باری خان، افتخار احمد ملک، ثمن شمسی اورعثمان حنیف کو مختلف کیٹیگری میں ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ایورڈز کی جیوری کو یادگاری شیلڈز پیش کیے جانے کے بعد معروف گلوکارعباس علی خان نے زبردست پرفارمینس کا مظاہرہ کیا، انہوں نے مہدی حسن اور شفقت امانت علی خان کے گیت اپنی آواز میں پیش کیے۔ 

اس پروقار تقریب نے تمام حاضرین پر نوجوان نسل کے حوالے سے ایک انتہائی مثبت تاثر مرتب کیا اور یہ ثابت کیا کہ ہماری نئی نسل ادب اور فن کے حوالے سے بہت باصلاحیت ہے۔ ان ایوارڈز نے مستقبل کے ایڈیشنز کے لیے امیدیں پیدا کر دی ہیں، جس میں دیگر کیٹگریز کے لیے بھی ایوارڈز شامل کیے جائیں گے۔اس خُوب صورت اور باوقار تقریب کا اختتام پرتکلف عشائیہ پر ہوا۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید