• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیکولر ترکی کے ڈراموں کو سلطنت عثمانیہ سمجھنے والے کیا ترقی کرینگے؟

فیصل آباد (نمائندہ جنگ) لائلپور لٹریری کونسل کے زیر اہتمام9ویں فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کے مقالاجات میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ سیکولرترکی کے ڈراموں کو سلطنت عثمانیہ سمجھنے والے کیا ترقی کرینگے؟ فیسٹیول کے دوسرے روز پہلے سیشن میں ʼفسوں ساز کا ہنرʼ کے موضوع پر ڈاکٹر طاہرہ اقبال، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور امجد طفیل نے پاکستان میں 75 سال کے دوران لکھے جانے والے فکشن پر اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر طاہرہ نے کہا کہ ثقافتی منظر نگاری میں خواتین مردوں سے آگے بڑھتی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر ناصر نے کہا کہ ہماری جو داستانیں ہیں ان میں تجسس کا عنصر کم ہوتا ہے اور اکثر کہانی کا اختتام معلوم ہوتا ہے۔ حمید شاہد نے کہا کہ منٹو نے خود سوال اٹھایا تھا کہ کیا ہمارا ادب ہندوستان کےادب سے کیسے مختلف ہو گا۔ امجد طفیل نے کہا کہ 1980ء کی دہائی کے بعد جو لکھنے والے آئے ہیں انہوں نے سیلف سینسر شپ سے گریز کا رویہ اختیار کیا ہے۔ دوسرے سیشن میں فرخ سہیل گوئندی نے اپنے سفرنامے ’میں ہوں جہاں گرد‘ کے بارے میں عدنان بیگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہ، بیس سال کی عمر میں انہوں نے جن مختلف ممالک کا سفر کیا اس نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی نے جب اپنے ملک کی سیاسیت اور سیاحت کو مذہب سے جدا کیا اور سیکولر اسٹیٹ بن کر سامنے آیا تب اس نے ترقی کی لیکن ہمارے ہاں ترکی کے ڈرامے دیکھ کر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جی رہے ہیں۔ تیسرے سیشن میں ʼاج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بولʼ کے موضوع پر ڈاکٹر خولہ چیمہ، ڈاکٹر توحید چٹھہ اور ناصر ڈھلوں نے پنجاب کی تقسیم کے وقت جنم لینے والے انسانی المیوں کی کہانیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس نسل کے لوگ آج بھی اس دور کو آزادی کی بجائے ʼونڈʼ )تقسیم( کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔
اہم خبریں سے مزید