• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں فوجی سپہ سالار کے منصب کو ابتدا ہی سے انتہائی طاقت وَر اور سیاسی و جمہوری حکومتوں پر بالادست سمجھا جاتا رہا ہے اور یہ تاثر بھی ابتدا ہی سے جنم لے چُکا ہے کہ اِس منصب پر تقرّری کےلیے ’’سُپرپاور‘‘ کا نظر نہ آنے والا کردار اور شخصیت کے حوالے سے اُس کی خواہش شامل ہوتی ہے اور بدقسمتی سے یہ تاثر نہ صرف آج بھی قائم ہے بلکہ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ اِسےتقویت ہی ملی اورشاید یہی وجہ ہےکہ جب قومی اسمبلی سےعدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت رخصت ہوئی، تو انہوں نے اِس ساری کارروائی کو ’’امریکی سازش‘‘ قرار دے دیا اور شاید یہ ماضی کے اُسی تاثر کا شاخسانہ اور نتیجہ تھا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اُن کی ہم خیال و ہم آواز بھی بن گئی اورستم بالائے ستم یہ کہ آج وہ اپنے اُس سازشی بیانیے سے منحرف بھی ہوگئے ہیں۔ 

گویا مختلف حوالوں، بیانات، انٹرویوز میں علانیہ یا علامتی طور پر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اُن سے غلطی ہوگئی تھی۔ یعنی اب ’’Absolutely Not‘‘نہیں ’’ I Am Sorry‘‘۔ بہرحال، وطنِ عزیز میں فوجی سپہ سالار کی تعیناتی، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی جہاں ایک طویل تاریخ ہے، وہیں اِن مراحل سے سازشوں، سفارشوں، ریشہ دوانیوں کی کئی دل چسپ کہانیاں، داستانیں بھی جُڑی ہیں۔

تو آئیے، ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں کہ کس کس نے منصب کے حصول، مدّتِ ملازمت میں توسیع کےلیےکیاکیاجتن کیےاور کن سپہ سالاروں نے یہ سب کچھ کرنے کو اپنےضمیرکی آواز کےخلاف سمجھا اور پیش کش کے باوجود مدّتِ ملازمت پوری ہونے پر منصب کو خیرباد کہہ دیا۔ اس ذکر کا آغاز گزشتہ ماہ ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہی سےکرتے ہیں، جنہوں نے اپنی مدّتِ ملازمت ختم ہونے کےبعد تین سال کی توسیع بھی حاصل کی۔ 

سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ملنے والی تین سالہ توسیع کا باقاعدہ اطلاق2019 ءکے آخری ہفتے سےہوا اور اس طرح جنرل قمر جاوید باجوہ مدّتِ ملازمت میں توسیع پانے والے پاکستانی فوج کے پانچویں سربراہ بن گئے۔ 

ان سے قبل دو فوجی آمر جنرل محمّد ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف بطور آرمی چیف اور سربراہِ مملکت خود کو توسیع دیتے رہے۔ اس کےبعدجنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّت ملازمت میں توسیع کا اعلان بالترتیب سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیرِاعظم عمران خان نے کیا۔ پاک فوج کے اب تک کے16 سربراہان میں سے چھے کو چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کرنےکا اعزاز سابق وزیراعظم نواز شریف کوحاصل ہے، لیکن انھوں نے کسی ایک کی بھی مدّتِ ملازمت میں توسیع نہیں کی۔

ویسے نومبر 2016 ءمیں آرمی چیف بننے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کے باضابطہ اعلان سے قبل ہی اِس فیصلے کے امکانات ظاہر کیے جارہے تھے۔ یاد رہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دَورِ سربراہی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل کرکے گھربھیجاگیا اور بعد میں احتساب عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں اُنھیں اور اُن کی صاحب زادی مریم نواز کو بھی زندگی میں پہلی مرتبہ اسیری کامزہ چکھنا پڑا۔ 

جنرل باجوہ ہی کے دَور میں فوج کی زیر نگرانی سال 2018 ءکے عام انتخابات منعقد ہوئے اور اُن کے متنازع نتیجے میں عمران خان وزیراعظم بنے۔ اِسی طرح جنرل قمر جاوید باجوہ سے قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کا تنازع بھی سامنے آیا تھا۔2016 ءمیں اگست اور ستمبر کے دوران اسلام آباد اور کراچی کی سڑکوں پر اُن کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کے حق میں بینرز اور پلے کارڈز تک آویزاں کئے گئے، جن میں اُن کی تصویر کے ساتھ ’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘ جیسے نعرے درج تھے۔ پھر اُس وقت اقتدار کی غلام گردشوں میں یہ باتیں بھی ہوئیں کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو راحیل شریف کی طرف سے مدّتِ ملازمت میں توسیع کے پیغامات بھی بھیجے گئے۔ بہرحال، قیاس آرائیاں تو ہوتی رہتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف نے توسیع نہیں لی اور مقرّرہ وقت ہی پرریٹائر ہوئے ۔

جنرل راحیل شریف کے پیش رَو، جنرل اشفاق پرویز کیانی کو 22 جولائی 2010ءکو ملازمت میں تین سال کی توسیع دی گئی اور یہ اعلان اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قوم سے ایک خطاب میں کیا۔ اس حوالے سےجب سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے پوچھا گیا کہ آپ نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کس کے کہنے پر کی، تو انھوں نے بتایا کہ اِس توسیع کا فیصلہ باضابطہ اعلان سے تین ماہ قبل ہی کر لیا گیا تھا۔ 

تب ایک عام تاثر یہی تھا کہ جنرل کیانی کی توسیع میں امریکا نے کوئی کردار ادا کیا ہے، لیکن سابق وزیرِاعظم گیلانی اس کی تردید کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فیصلہ اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی مشاورت سے کیا گیا۔ اِسے تاریخ کا جبر کہیے یا کچھ اور کہ اپنے قلم سے سابق آرمی چیف جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع دینے والے یوسف رضا گیلانی خود وزیر اعظم کے طور پر پانچ سال کی مدّت پوری نہ کرسکے اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے پیش نظر اُنھیں اپنے عُہدے سے سبک دوش ہونا پڑا، البتہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بطور صدر پانچ سال کی مدّت ضرور پوری کی۔ 

جنرل مشرف نے بطور آرمی چیف، جب اپنا عُہدہ چھوڑا، تو 29 نومبر 2007 ءکو جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف تعینات کیا اور جنرل مشرف آج بھی اپنی اقتدار سے رخصتی کی ایک بڑی وجہ اِسی فیصلے کو قرار دیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کو چھے اکتوبر 1998 ءکو اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لینے کے بعد آرمی چیف تعینات کیا، مگر مئی 1999 میں کارگل تنازعے کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف کےدرمیان فاصلے پیدا ہوئے اور اکتوبر 1999ء میں نوازشریف نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو اُن کے غیر مُلکی دورے سے واپسی کےسفر پر دورانِ پرواز برطرف کرکےجنرل ضیاالدین خواجہ کو آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔ لیکن جنرل مشرف اُن سے پہلے ہی اپنا پلان تیار کر چُکے تھے۔ 

جنرل شاہد عزیز اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں تفصیل سے لکھ چُکے ہیں کہ کیسے جنرل پرویز مشرف نے بیرونِ ملک جانے سے قبل بشمول جنرل عزیز، جنرل محمود اور اُس وقت کے ڈی جی ایم آئی، جنرل احسان کوہدایت کی تھی کہ نوازشریف حکومت کی جانب سے اُنھیں ہٹائے جانے کی صُورت میں آپ سب کو مارشل لا لگانے کا اختیار ہے۔ اور ہوا بھی یہی۔ مشرف تو ہوا میں تھے، لیکن زمین پر کارروائی اُنھی جرنیلوں نے کی۔ نتیجے میں پرویز مشرف اپنے عہدے سے نو سال ایک ماہ اور 23 دن تک چمٹے رہے اور خُود ہی اپنے آپ کو توسیع دے کر آرمی چیف کے عہدے پر براجمان رہے۔

جنرل مشرف اور جنرل جہانگیر کرامت سے قبل جنرل عبدالوحید کاکڑ آرمی چیف تھےاور انھیں 11جنوری 1993 ء کو تعینات کیا گیا تھا۔ یوں تو اُن کی تعیناتی نوازشریف کے پہلے دورِ حکومت میں ہوئی تھی، لیکن یہ تعیناتی صدر کو اُس وقت کے قانون کے تحت وزیراعظم کی طرف سے بھیجے گئے افسران کی فہرست میں درج پینل سے کی گئی۔ وحید کاکڑ کو صدر غلام اسحاق خان نے آرمی چیف تعینات کیا۔ غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ہونے والے تنازعے میں جب جنرل کاکڑ امپائر بنے، تو دونوں کو گھر جانا پڑا اور نئے انتخابات کے بعد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اقتدار میں آ گئیں۔

بےنظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد جنرل وحید کاکڑ کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آیا تو اُنھیں ملازمت میں توسیع کی پیش کش کی گئی، جو انھوں نے قبول نہیں کی۔ اب تک پاکستانی فوج میں جنرل وحید کاکڑ ہی واحد افسر ہیں، جنہوں نےتوسیع کی پیش کش قبول نہیں کی اور 12 جنوری 1996ء کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔ جنرل وحید کاکڑ کو عہدہ ملنے سے قبل جنرل آصف نواز آرمی چیف تھے، جنھیں وزیر اعظم نوازشریف کی مشاورت سے 16 اگست 1991 ءکو تعینات کیا گیا تھا۔ مگر وہ صرف ایک سال 145 دن آرمی چیف رہے اور بطور آرمی چیف ہی اچانک وفات پا گئے اس لیے کسی توسیع کے تنازعے سے بچے رہے۔

اُن سے پہلے 17 اگست 1989 ءکو جنرل ضیاالحق کی طیارہ گرنے سے ہلاکت کے بعد جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بنے۔ تب غلام اسحاق خان عبوری صدر تھے، جنھوں نے مُلک میں عام انتخابات منعقد کروائے تھےاور اُس کے نتیجے میں بےنظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان بنی تھیں۔ اُن کی اسٹیبلشمینٹ سے لڑائی اور اقتدار سے رخصتی کے نتیجے میں عام انتخابات کے بعد میاں محمّدنوازشریف اقتدار میں آئے اور آنے کے کچھ عرصے بعد ہی جنرل آصف نواز کو نیا آرمی چیف تعینات کردیا۔ کہا جاتاہے کہ جنرل اسلم بیگ کو اپنی ملازمت میں توسیع کی امیدوں پر پانی پھرنے پر نوازشریف سے بہت گِلہ تھا۔

جنرل اسلم بیگ سے قبل جنرل ضیاالحق آرمی چیف تھے، جنھیں وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یکم مارچ 1976 ءکو آرمی چیف تعینات کیا تھا۔ ان ہی جنرل ضیا نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹایا اور حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد مسلسل 12 سال 169 دن یعنی اپنی موت تک آرمی چیف رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جنرل ضیاء نے سب سے طویل عرصے تک آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا اور پاکستانی فوج میں جنرل ضیا ہی وہ پہلے آرمی چیف تھے، جنھوں نے خود اپنی مدّتِ ملازمت میں توسیع کی اور فوج میں بطور آرمی چیف توسیع کی روایت ڈالی۔ 

جنرل ضیا سے قبل بھٹو کے آرمی چیف، جنرل ٹکا خان تھے، جو چار سال سے صرف ایک دن کم تک آرمی چیف رہے اور ریٹائر ہوگئے۔ جنرل ٹکا خان کی سربراہی سے قبل آرمی چیف کا عہدہ کمانڈر انچیف کے طور پر جانا جاتا تھا۔ پاکستان آرمی کے 1947سے1972ءتک چھے کمانڈر انچیف رہے، جن میں جنرل فرینک میسر وے، جنرل ڈگلس گریسی، جنرل ایوب خان، جنرل موسیٰ خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل گل حسن خان شامل ہیں۔ ان چھے میں سے دو یعنی جنرل ایوب خان اور جنرل یحٰیی سب سے متنازع تھے۔ جنرل ایوب اس لیے کہ انھوں نے پہلےگورنر جنرل، اسکندر مرزا کی ہدایت پر حکومت برطرف کی اور پھر خود اسکندر مرزا کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

یاد رہے، جنرل ایوب خان مُلک کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف تھے۔ اُن دنوں کمانڈر انچیف کی مدّتِ ملازمت 4 سال ہوا کرتی تھی۔ بوگرہ حکومت کےخاتمےکے بعد ایوب خان کو سنہ 1955 ءمیں بطور کمانڈر انچیف چار برس کی توسیع مل گئی۔ یعنی یہ پہلا موقع تھا کہ جب فوج میں، فوج کے سربراہ کی طرف سے مدّتِ ملازمت میں توسیع کی ناپسندیدہ روایت متعارف کروائی گئی۔ جون1958ءمیں جب دوسری توسیعی مدّت ختم ہونےمیں سال بھر باقی تھا، تو اُنھیں صدرسکندرمرزا کے دباؤ پر فیروز خان نون حکومت سے مزید دو برس کی پیشگی توسیع مل گئی، حالاں کہ فیروز خان نون اگلا کمانڈر انچیف میجر جنرل نواب زادہ جنرل شیر علی خان پٹودی کو دیکھ رہے تھے، لیکن بقول الطاف گوہر، کمانڈر انچیف ایوب خان کو یہ گوارہ نہ تھا۔ 

دراصل اُس وقت تک اسکندر مرزا اور جنرل ایوب میں بھی گہری دوستی ہوچُکی تھی اور صدر اسکندر مرزا ایوب خان کو اپنا خاص وفادار معاون دیکھتے تھے۔ اِسی لیے اسکندر مرزا نے ایوب خان کو پہلے مارشل لا کی ہدایت دی، جس پر انہوں نے 7 اکتوبر 1958 ءکو عمل کیا اور اُس وقت کی سیاسی حکومت کو چلتا کردیا، لیکن دٍنوں میں اسکندر مرزا اور ایوب خان میں غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں، جس کے بعد جنرل ایوب خان نے فوجی افسران کی ایک ٹیم اسکندر مرزا کے گھر بھیجی۔ رات گئے اُنھیں نیند سے اٹھایا گیا اور 27 اکتوبر 1958ء کو بطور صدر ان سے استعفیٰ لے کر ایوب خان خود صدر بھی بن گئے۔ 

یعنی جس شخص نے ایوب خان کو مدّت ملازمت میں توسیع دلوائی،وہ خود گھر بھیج دیا گیا۔ جنرل ایوب پر 1965 کی جنگ کے بعد خود کو فیلڈ مارشل قرار دینے کا الزام بھی ہے، لیکن جنرل ایوب نے فوجی ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود کمانڈر انچیف کا عہدہ 27 اکتوبر 1958 ءکو جنرل موسیٰ کے سپرد کیا۔ بعد ازاں، 18 ستمبر 1966 ءکو یحییٰ خان اس عہدے پر فائز ہوئے۔ جنرل ایوب خان کی اقتدار پر گرفت کم زور ہوئی، تو یحییٰ خان نے 31 مارچ 1969 ء کو انُھیں گھر بھیج کر خود اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل یحییٰ خان اقتدار کے ساتھ کمانڈر انچیف کی سیٹ پر بھی جمے رہتے، اگر 16 دسمبر 1971 ءکو مشرقی پاکستان بنگلا دیش نہ بن جاتا۔ مشرقی پاکستان میں شکست نے 20 دسمبر 1971 ءکو یحییٰ خان کو گھر جانے پر مجبور کیا، وگرنہ شاید آج تاریخ میں اُن کا نام بھی اپنے عہدے سے چمٹ کر توسیع لینے والوں کی فہرست میں شامل ہوتا۔

فوجی سپہ سالار کی تعیناتی کا طریقہ کار

پاکستان میں طاقت وَر اور اہم ترین سمجھے جانے والے عُہدے، چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کے حوالے سے طریقۂ کار بہت مختصر اور طے شدہ ہے۔ آرٹیکل 243 کی شِق تین کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت برّی، بحری اور فضائی تینوں سروسز کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو تعینات کرے گا۔ تاہم، اس تقرّری میں سارا اختیار وزیراعظم کا ہوتا ہے اور جانے والے آرمی چیف کا اِس میں کچھ زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔ البتہ ماضی میں وزرائے اعظم سُبک دوش ہونےوالےآرمی چیف سےایک غیر رسمی مشاورت کرتے رہے ہیں۔ 

عسکری ماہرین کے مطابق آئین میں درج طریقۂ کار کے مطابق سبک دوش ہونے والےآرمی چیف، وزیراعظم کو سینیئر ترین جرنیلوں کی ایک فہرست دیتےہیں، اورپھر وزیراعظم، آرمی چیف کے امیدوار کا انتخاب کر کے نام، صدر پاکستان کو منظوری کےلیےبھیج دیتےہیں۔ اُن کےمطابق ’’آئین میں اِس اہم ترین عہدے یعنی آرمی چیف کی تعیناتی کےحوالے سے کوئی تفصیلی طریقۂ کار درج نہیں، حالاں کہ ایک درجہ چہارم کے ملازم کی سرکاری نوکری پرتعیناتی کے لیے بھی ایک لمبا چوڑا طریقۂ کار موجود ہے۔‘‘

ماہرین کے مطابق ’’آئین کے آرٹیکل 243 میں سروسز چیفس کی تعیناتی کے حوالے سے آدھا صفحہ بھی موجود نہیں، محض چند سطریں درج ہیں اور چوں کہ آئین اور قانون میں کوئی تفصیلی طریقۂ کار، سمری بھیجنے یا واپس کرنے کی کوئی واضح ٹائم لائن موجود نہیں، اِس لیے مروّجہ طریقۂ کار ہی سے رہنمائی لی جاتی ہے اور مروّجہ طریقۂ کار کے مطابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے پندرہ دن یا دو ہفتے قبل وزیراعظم آفس، خط لکھ کر وزارت دفاع سے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سمری منگواتا ہے۔ 

اِس کے بعد وزارتِ دفاع آرمی چیف سے ناموں کی فہرست مانگتی ہے۔ حکومتی رُولز آف بزنس کے مطابق کسی بھی سرکاری تعیناتی کے لیے اگر ایک عُہدہ خالی ہو تو تین نام بھیجے جاتے ہیں اور اگر دو تعیناتیاں کرنی ہوں، تو پانچ نام بھیجے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کو بھیجے گئے ناموں کی فہرست کے ساتھ ہر افسر کی سروس فائل بھی ہوتی ہے، جس میں اُس کی ماضی کی خدمات کا ذکر ہوتا ہے۔ اور پھر صدر کی منظوری کے بعد آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے تقرّر کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ 

واضح رہے، آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے خط و کتابت دستی طور پر کی جاتی ہے اور افسران یہ سمری لے کر وزارت دفاع سے وزیر اعظم ہاؤس جاتے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس سے بھی افسران خُود اُسے لے کر ایوانِ صدر جاتے اور واپس لاتے ہیں اور اِس سارے عمل کا مقصد اِس اہم تعیناتی کی رازداری کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ ایک افسر کی سینیارٹی کا تعیّن اُس کے کمیشن حاصل کرنے کی تاریخ سے کیا جاتا ہے اور پھر ساری زندگی کے لیے وہی تاریخ اس کی سینیارٹی متعیّن کرتی ہے۔ 

آرمی چیف کوپانچ اہل افراد کی لسٹ سینیارٹی کی ترتیب سےبھیجنا ہوتی ہے، تاہم روایتی طور پر آرمی چیف کے عُہدے کےلیے تعینات ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ فائٹنگ کور سے ہو اور اُس نے ایک سال تک کسی کور کی کمان بھی کی ہو۔‘‘ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ ٓ’’آرمی چیف کی تقرّری کے لیے اہلیت یہ ہے کہ متعلقہ افسر اُس وقت آرمی کا یونیفارمڈ آفیسر ہو اور اُس نے مدّتِ ملازمت میں توسیع نہ لے رکھی ہو۔‘‘ سنہ 2013 ءمیں جنرل راحیل شریف کی تعیناتی سے قبل اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اُس وقت کے آرمی چیف سے پانچ ناموں کی فہرست مانگی تھی، جو مہیا کی گئی۔ اُس کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری، فوّاد حسن فوّاد نے مزید پانچ نام بھی مانگے، تاہم وزیراعظم نے پہلی سمری سے تیسرے نمبر پر موجود جنرل راحیل شریف کا انتخاب کیا۔ 

نئے آرمی چیف کا اعلان بعض اوقات مہینوں پہلے کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ جنرل آصف نواز کے نام کا اعلان تین ماہ قبل کر دیا گیا تھا۔ مگر بعض اوقات نام کا اعلان صرف چند دن پہلے ہی کیا جاتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی تعیناتی کا اعلان صرف دو دن پہلے کیا گیا تھا۔ تاہم آرمی سے متعلق قوانین کے ایک ماہر، ریٹائر جنرل کا کہنا ہے کہ ’’آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے آئین میں طریقۂ کار درج ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات آرمی ایکٹ میں بھی موجود نہیں۔ 

آرمی چیف بننے کے لیے ایسی کوئی قدغن آرمی ایکٹ میں موجود نہیں کہ متعلقہ جنرل ایکسٹینشن پر نہ ہو۔ تاہم آرمی چیف کی تعیناتی کے قواعد خاصےمبہم ہیں۔ جیسا کہ سابق آرمی چیف اور فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’اُنہیں اکتوبر1998ء میں اپنی تعیناتی سے قبل اچانک وزیراعظم کے دفتر سے فون آیا کہ آکر ملیں۔ اس پر وہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو بتائے بغیر فوراً وہاں پہنچے، تو اُنہیں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کہ اُنہیں آرمی چیف تعینات کیا جا رہا ہے۔‘‘ یعنی اس عمل میں کوئی سمری نہیں بھیجی گئی تھی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے فوجی صدور…

پاکستان کے پہلے صدر، میجر جنرل اسکندر مرزا تھے، جو 23 مارچ 1956 ءسے 27 اکتوبر1958 ءتک اِس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل وہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی رہ چُکے تھے۔ 1956 ءمیں جب پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا گیا، تو اُس میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر کے صدارت کا منصب تخلیق کیا گیا، جس کا انتخاب الیکٹرل کالج کے ذریعے ہونا تھا۔ تاہم، صرف دوسال بعد ہی اسکندر مرزانے، اُسی آئین کو، جس کے تحت وہ صدر بنے تھے، معطّل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ 

یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا۔ 27 اکتوبر 1958 ءکو اسکندر مرزا نے ایوب خان سے اختلافات کی بنا پر استعفیٰ پیش کردیا اور جنرل ایوب خان نے صدر کا منصب سنبھال لیا۔ ایوب خان کو الیکٹرل کالج نے منتخب نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے یہ ساغر خود بڑھ کے اٹھایا تھا۔ 

تاہم، اپنے عہدے کو قانونی چھتری فراہم کرنے کے لیے1960 ءمیں ریفرنڈم منعقد کروایا، جس میں اُنھیں بھاری حمایت فراہم ہو گئی۔ ایوب خان گیارہ سال کے لگ بھگ صدارت کے عہدے پر براجمان رہے۔ اس دوران ایک اور آئین منظور کیا گیا، جس میں اُن کی صدارت کی توثیق کی گئی، جب کہ اِسی دوران انھوں نےانتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کام یابی حاصل کرلی۔ 

اِن انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد جس رفتار سے ایوب خان کی حکومت کے خلاف عوامی ناپسندیدگی بڑھی، اُسی رفتار سے ایک شعلہ بیان سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کا ستارہ بلند ہوا۔ اور بالآخر 25 مارچ 1969 ءکو ایوب خان نے اپنا عُہدہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے سپرد کر کے بَن باس لے لیا۔ یحییٰ خان کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے رنگین و سنگین کردار کہا جائے، تو بےجا نہیں ہوگا۔ 

انھوں نے پاکستان میں دوسری بار مارشل لا نافذ کیا۔ یاد رہے، اُنھیں مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کا ذمّے دار بھی سمجھا جاتا ہے۔ اُن کے شباب و شراب کے قصّے بھی مشہور ہیں، تاہم ان کے نامۂ اعمال میں یہ نیکی ضرور لکھی ہوئی ہے کہ انھوں نے 1971ء میں مُلک کی تاریخ کے سب سے صاف و شفّاف انتخابات منعقد کروائے، لیکن بھارت سے بدترین شکست اور مُلک کےدولخت ہونے پر رائے عامہ اُن کے اِس قدر غیر موافق ہوگئی کہ اُن کا اپنے عہدے پر مزیدبرقرار رہنا ناممکن ہوگیا۔ چناں چہ وہ 20 دسمبر 1971 ءکو عنانِ اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ کر چلتے بنے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے وزیرِخارجہ، وزیرِاعظم اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ برس تک مُلک کے صدر بھی رہے ہیں۔ 1971 ءمیں اُن کی جماعت نے مغربی پاکستان میں واضح برتری حاصل کی تھی، جس کے باعث وہ 1973 ءمیں وزیرِاعظم منتخب ہوگئے۔ بھٹو کےدورِ وزارتِ عظمیٰ میں مُلک کے صدرفضل الٰہی چوہدری تھے۔ 1973 ءکے آئین کے تحت مُلک کو پارلیمانی جمہوریت بنا دیا گیا تھا، جس میں اختیارات کا کلاہ منتخب پارلیمان اور وزیرِاعظم کے سَروں پر سج گیا تو صدر کا عہدہ محض فائلز پر دستخط کرنے اور تقریبات میں فیتہ کاٹنے تک سمٹ کر رہ گیا۔ 

یہاں تک کہ صدارت کی اسی بے توقیری کے پیشِ نظر بعض ستم ظریفوں نے ایوانِ صدارت کی دیواروں پر لکھ دیا کہ ’’چوہدری فضل الٰہی کو رہا کرو۔‘‘ بھٹّو نے وہی غلطی کی، جو ان سے قبل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کرچُکے تھے، یعنی فوج کے سربراہ کا عاقبت نااندیشانہ چناؤ اور اس کا خمیازہ اُنھیں یوں بھگتنا پڑا کہ جنرل ضیاالحق1977ءمیں اُنھیں معزول کر کے مُلک کےتیسرے چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر بن گئے۔ چوہدری فضل الٰہی نے کچھ عرصہ ساتھ نبھایا، لیکن تابکے؟ 

آخر 14 ستمبر 1978 ءکو وہ سبک دوش ہوگئے، جس کے دو دن بعد جنرل ضیاالحق نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ اس مدتِ صدارت کو توسیع دینے کے لیےجنرل ایوب کی مانند جنرل ضیا کو بھی ریفرنڈم کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑی۔ چناں چہ 1984 ءمیں انھوں نے وہ حددرجہ متنازع ریفرنڈم منعقد کروایا، جس میں وہ 95فی صد ووٹ لے کر ’’سُرخ رُو‘‘ ہوئے۔ اگلے برس ضیاالحق نےغیرجماعتی انتخابات منعقد کروائے اور نو منتخب اسمبلی نے نہ صرف ضیاالحق کے تمام سابقہ اقدامات کی توثیق کر دی بلکہ آٹھویں ترمیم بھی منظور کر دی، جس کی بدنامِ زمانہ 58- 2B شق کے تحت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ اب چوہدری فضل الٰہی محض صدر نہ رہے بلکہ اُن کے سامنے وزیرِاعظم اور پارلیمان ربر اسٹیمپ بن کر رہ گئے۔

17 اگست 1988 ءکو گیارہ برس بعد صدر ضیاالحق کے اقتدار کا سورج اُس وقت غروب ہوا، جب اُن کا طیارہ بہاول پور کے قریب فضا میں پھٹ کر تباہ ہو گیا۔ 1973 کے آئین کے تحت صدر کی غیرموجودگی میں سینیٹ کا چیئرمین صدر بن جاتا ہے،تو اُس وقت سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحٰق خان تھے، چناں چہ وہ مُلک کے پانچویں صدر بن گئے۔ جب 16 نومبر کو انتخابات ہوئے، تو پیپلزپارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آ گئی۔ تاہم بےنظیر بھٹو کی حکومت نے مصلحتاً جنرل ضیا کےمحرمِ دروں خانہ، غلام اسحٰق خان ہی کو صدر کے عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 

یہ فیصلہ خاصا بھاری ثابت ہوا اور صدر نے دو سال کے اندر اندر ہی بےنظیر بھٹو کی حکومت کی بساط لپیٹ دی۔ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی۔ شروع شروع میں تو ان کی حکومت کی غلام اسحٰق خان کے ساتھ خُوب پینگیں بڑھیں، لیکن رفتہ رفتہ حالات خراب ہوتے گئے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ نواز شریف نے ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مثل جولائی 1993 ءمیں نہ صرف خود وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو لیے بلکہ غلام اسحٰق خان کو بھی ساتھ لے ڈوبے۔ یہ سیاسی میوزیکل چیئر کا زمانہ تھا، کبھی ہم، کبھی تم کا دور۔ 

سو، ایک بار پھر بےنظیر بھٹو اقتدار میں آگئیں اور اِس بار انھوں نے کسی اور جماعت کے صدر پر بھروسا کرنے کی بجائےاپنی جماعت کےفاروق احمد لغاری کو بھاری اکثریت سے صدر منتخب کروا دیا۔ لیکن نومبر 1996 ءمیں ؎ ’’جن پہ تکیہ تھا،وہی پتّےہوا دینے لگے‘‘۔ یعنی ایک بار پھر بےنظیر بھٹو کی حکومت کو معزول کردیا گیا۔ نواز شریف ایک بار پھر وزیرِاعظم بن گئے اور جیسا کہ ہوتا آیا ہے، زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اُن کے فاروق لغاری کے ساتھ بھی اختلافات پیدا ہوگئے۔ نواز شریف چوں کہ پہلے ہی ایک سوراخ سے ڈسے ہوئے تھے، اِس لیے اُنھوں نے آتے ہی بھاری مینڈیٹ کے زنبور سے آٹھویں ترمیم کا ڈنک نکلوا دیا۔ 

فاروق لغاری کو چوہدری فضل الٰہی بننا منظور نہیں تھا، اِس لیے دو دسمبر 1997کو تنگ آ کر استعفیٰ دے دیا۔ فاروق لغاری کے بعد سپریم کورٹ کےسابق جج اورنواز شریف کے معتمد محمّد رفیق تارڑ مُلک کے صدر بنے۔ اُن کے دَورِ میں چوں کہ صدر کے خصوصی اختیارات ختم ہو چُکے تھے، اِس لیے ایک بار پھر لوگوں کو چوہدری فضل الٰہی کی یاد آ گئی۔ نواز شریف نے ماضی سے سبق نہ سیکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو خصوصی ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا۔

جب جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 ءکو نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا، تو اپنے لیے چیف ایگزیکیٹو کا عہدہ منتخب کیا اور رفیق تارڑ کو صدر رہنے دیا۔ لیکن اُنھیں محسوس ہوا کہ مُلک کے دوسرے فوجی سربراہان کی طرح اُن پر صدارت ہی سجے گی، اِس لیے انھوں نے بھی ایک ریفرنڈم منعقد کروایا اور رفیق تارڑ کو گھر بھجوا کر 20 جون 2001ءمیں خود صدارت کا حلف اٹھا لیا۔ 

تاہم، مشرف کی یہ صدارت رفیق تارڑ اور چوہدری فضل الٰہی کی طرح بے ضرر نہیں تھی، بلکہ انھوں نے 58- 2B کا گڑا مُردہ نکالا اور اُسے جھاڑ پونچھ کر اسمبلی اور وزیرِاعظم کے سر پر داموکلس کی تلوار کی طرح لٹکا دیا۔ اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور منتخب وزیرِاعظم اٹھتے بیٹھتے ’’یس باس‘‘ کا ورد کرنے لگے۔ 

ان ہی بھاری اختیارات کے ساتھ 2007 ءمیں ایک بار پھر پرویز مشرف کے سر پر صدارت کا سہرا سجایا گیااور اس بار انھیں الیکٹرل کالج نے منتخب کیا تھا۔ 2008 ءکے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی، اور اس کے چند ماہ کے اندر اندر ہی حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ پرویز مشرف کو نہ صرف ایوانِ صدر بلکہ مُلک ہی کو خیرباد کہنا پڑ گیا، اور آصف علی زرداری گیارھویں صدر منتخب ہوگئے۔ ویسے تو مُلک میں اُن کی مخالفت جاری رہی، لیکن یہ کریڈٹ اُنھیں ضرور دینا پڑے گا کہ وہ 58- 2B سے دست بردار ہوگئے۔ تاہم، ان کااپنی پارٹی پر شکنجہ اتنا مضبوط تھا کہ اُنھیں باقی ماندہ مدتِ صدارت میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک …چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشماد

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشماد کا تعلق سندھ رجمنٹ کی آٹھویں بٹالین سے ہے اور وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے76ویں لانگ کورس کا حصّہ رہے۔ اُن کی ذاتی اور عسکری زندگی قابلِ تحسین، قابلِ رشک ہی نہیں، قابلِ تقلید بھی ہےکہ اوائل عُمری ہی میں، جب محض 8 سال کےتھے، والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے اور پھر والدہ بھی چل بسیں، یعنی دنیا میں ان کا کوئی خونی رشتہ نہیں رہا، تو انہوں نے اپنی زندگی کی تمام سمتوں کا تعیّن خُود کیا۔ جنرل ساحر شمشاد کا تعلق پنجاب کے ضلع چکوال سے ہے۔ 

اُنھیں جون2019ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی، جب کہ انھوں نے بطور ایڈجوٹینٹ جنرل اور چیف آف جنرل اسٹاف بھی فرائض سرانجام دیے۔ ’’دہشت گردی کےخلاف جنگ‘‘ کے دوران انفنٹری ڈویژن کمانڈ کی، سابق آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کی ٹیم کاحصّہ رہے اور مختلف فوجی آپریشنز کی سرپرستی کی، جن میں تحریکِ طالبان پاکستان کےخلاف شمالی وزیرستان آپریشن بھی شامل ہے۔ نیز، پاکستان، چین، امریکا اور افغانستان کےدرمیان بات چیت کے سلسلے کو شروع کرنے اورجاری رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 

وہ جنرل راحیل شریف کے دَور میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جینس رہے اور پھر تھری اسٹار جنرل کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد چیف آف جنرل اسٹاف کےعہدے پر تعینات کردئیے گئے، جب کہ اکتوبر2021ءمیں بطور کور کمانڈر راول پنڈی تعینات کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا سے متعلق ان کے سینیئر افسران کا کہنا ہے کہ ’’وہ ایک غیر متنازع اور آل راؤنڈر آفیسر ہیں۔‘‘ اور اُن سے دیرینہ شناسائی رکھنے والے بتاتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے انتہائی ملن سار، حلیم الطبع، ہنس مُکھ اور بردبار طبیعت کے مالک ہیں، جب کبھی گاؤں آتے ہیں اور پُرانے ساتھی گلی میں ملاقات کے دوران کندھے پر ہاتھ رکھ کر بے تکلّفانہ انداز میں گفتگو کرنے لگتے ہیں، تو جنرل صاحب قطعاً اعتراض نہیں کرتے۔ 

والدین کی وفات کے بعد جنرل شمشاد مرزا نے فوج ہی کو اپنا سب کچھ مان لیا، یہاں تک کہ جب ایک سرکاری فارم پُر کرتے ہوئے وارث کا نام لکھنا پڑا، تووہاں ’’8سندھ رجمنٹ‘‘ یعنی اپنی رجمنٹ کا نام لکھ دیا۔ بلاشبہ فوج میں ان کا موجودہ اعلیٰ مقام بھی خالصتاً اُن کی ذاتی محنت اور جدّوجہد ہی کا نتیجہ ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل عاصم منیر …

اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے پہلے حافظِ قرآن سپہ سالار، آؤٹ اسٹینڈنگ آفیسر

پاکستان کی عسکری تاریخ میں جنرل آصف منیر پہلے فوجی سپہ سالار ہیں، جو دو انٹیلی جینس ایجنسیز، انٹر سروسز ایجینسی(آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جینس(ایم آئی) کی سربراہی کرچُکے ہیں۔ یہی نہیں، وہ پاک فوج کے پہلے کوارٹر ماسٹر جنرل ہوں گے، جنہیں آرمی چیف مقرّر کیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر راول پنڈی کے علاقے، ڈھیری حسن آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی سروس کا آغاز آفیسرز ٹریننگ اسکول کے 17ویں کورس میں منگلا سےکیا، جس کےبعد اُنھیں فرنٹئیر فورس رجمنٹ کی 23ویں بٹالین میں کمیشن دیاگیا۔ 

بطورلیفٹیننٹ کرنل انھوں نے سعودی عرب میں فرائض سر انجام دیے اور بطور بریگیڈیئر فورس کمانڈ، جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ناردرن ایریاز میں بھی کام کیا۔ اپنی سروس کے دوران وہ متعدّد اہم پوسٹس پر تعینات رہے۔ تاہم، اہم ترین تعیناتیاں بطور سربراہ، آئی ایس آئی اور ڈی جی، ملٹری انٹیلی جینس تھیں۔ 2018 ء میں اُنھیں لیفٹیننٹ جنرل کےعہدے پر ترقی دی گئی اور2019 ء میں اُنھیں کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات کیا گیا۔ وہ اعزازی شمشیر یافتہ ہیں اور اُن کے بارے میں ہمیشہ سےکہا جاتا ہےکہ وہ ایک ’’آؤٹ اسٹینڈنگ آفیسر‘‘ ہیں۔

صوم و صلوٰۃ کے پابند جنرل عاصم منیر کو ذاتی حیثیت میں دینی حوالے سے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے پہلے حافظِ قرآن سپہ سالار ہیں۔ اُن کے والدین نے دنیاوی تعلیم سے پہلے اُنہیں دینی تعلیم دلوائی یعنی عاصم منیر نے اسکول جانے سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ اُن کے والد کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا اور وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے، جب کہ عاصم منیر ایک لائق فائق، غیرمعمولی طور پر ذہین طالبِ علم تھے، تب ہی نہ صرف کم عُمری میں قرآنِ پاک حفظ کیا، بلکہ تعلیمی ریکارڈ بھی شان دار رہا۔ اُن کے دونوں بھائی، قاسم منیر اور ہاشم منیر بھی حافظِ قرآن ہیں اور اسی نسبت سے ان کا خاندان ’’حفّاظ کا خاندان‘‘ کے طور پر مشہور تھا۔ 

انگریز کمانڈر اِن چیف سے پاکستانی کمانڈر اِن چیف تک…

پاکستان کے پہلے کمانڈر اِن چیف (پاک فوج کے سربراہ) لیفٹیننٹ جنرل سرفرینک والٹر میسروی تھے، جنہیں 15اگست 1947ء کو اس منصب پر فائز کیا گیا۔ یاد رہے، اس ذمّے داری کے لیے اُنہیں ترقّی دےکر قائم مقام فور اسٹار جنرل بنایا گیا تھا۔ اُنہی کے دَور میں معروف ’’آپریشن گُل مرگ‘‘ شروع ہوا اور پاکستانی قبائلی لشکر پیش قدمی کرتا ہوا سری نگر تک جا پہنچا۔ صورتِ حال کے پیشِ نظر کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ نے ’’جیسا ہے، جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر فوری طور پر جمّوں میں بھارت سے الحاق کی دستاویز پر معاہدے کے دستخط کر دیئے اور بھارتی دستوں نے قبائلی لشکر پیچھے دھکیلنا شروع کردیئے، یوں یکم جنوری 1949ء کو یہ جنگ اختتام پذیر ہوئی۔ 

اسی دوران، جنرل والٹر میسروی کی مدّتِ ملازمت ختم ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی گورنر جنرل، لارڈ مائونٹ بیٹن، جنرل میسروی سے اس لیے خوش نہیں تھے، کیوں کہ انہوں نے پاکستانی قبائلیوں کی سری نگر میں پیش قدمی سے متعلق اُنہیں بروقت آگاہ نہیں کیا تھا، جب کہ جنرل میسروی کا موقف تھا کہ منصب کے تقاضوں کے پیشِ نظر وہ اس قسم کی اطلاعات اور معلومات صرف پاکستانی حکومت کو دینے کے مجاذ ہیں۔ 

جنرل میسروی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے ڈپٹی، جنرل سرڈوگلاس ڈیوڈ گریسی نے پاک فوج کے کمانڈر اِن چیف کا عُہدہ سنبھالا، جو 16؍جنوری 1951ء کو اپنی باقاعدہ مدّتِ ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوگئے۔ اُن کا انتقال 5جون 1964ء کو برطانیہ میں ہوا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اُن کی پیدائش متحدہ ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کی تھی۔ اس طرح دو انگریز سربراہان کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان پاکستان کے پہلے مقامی فوراسٹار جنرل اور پہلے فیلڈ مارشل بنے۔ فیلڈ مارشل کا عہدہ انہوں نے ’’ذاتی اختیار‘‘ پر حاصل کیا تھا اور وہ یہ منصب حاصل کرنے والے پاک فوج کے پہلے اور آخری جرنیل تھے۔

ایوب خان کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں، ریحانہ میں ہوئی، جو ایبٹ آباد کے قریب واقع ہے۔ تاہم، اس کا ایک کچّا رستہ، جو پہاڑیوں کی گزرگاہ ہے، اسلام آباد بھی جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہ ایک پس ماندہ اور دُور افتادہ گاؤں تھا، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بچّےخچّروں پر سوار ہوکر اسکول جایا کرتے تھے، جن میں خود ایوب خان بھی شامل تھے۔

سنڈے میگزین سے مزید