• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ہریش میسی۔۔۔۔لندن
ؔ آج کے دور کے بیشتر شعراء اب تک اپنے تخلیقی امکانات کی دریافت میں مصروف عمل ہیں،اگرچہ اس دور میں کوئی شاعر ایسا نظر نہیں آتا جسے اقبال،فیض اور ن م راشد کے بعد عظیم شعری روایات و تجربات کا امین کہا جاسکےلیکن مجموعی طور پر شاعری کا ایک بڑا ذخیرہ غزل اور نظم کی تمام اصناف میں جمع ہوگیا ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ غزل کا ارتقائی عمل رُک گیا ہے،آج کا شاعر جام و مینا،گل و بلُبل اورمحبوب کے فرضی تصورات سے نکل کر جیتی جاگتی رواں دواں زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے نبرد آزما ہے، اس کی ایک بڑی مثال خود سرفرازتبسم کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے،نئے شعراء نے نئے لفظیات اور نئی علامتوں کو متعارف کروایا ہے(علامتیں پرانی ہیں البتہ ان کا استعمال نیا ہے) ۔آج کا شاعر کائنات کے ساتھ جڑا ہوا ہے اپنے معاشرے اور اپنی زمین میں ایک درخت کی مانند جڑیں گاڑے ہوا ہے اس کی سوچ کائنات اور اس میں موجود عناصر آگ ہوا پانی اور مِٹی میں گندھی ہوئی ہے اور اس کا دل ان ہی عناصر کے باہم ملاپ کا نتیجہ ہے۔اس لیے آج کا شاعر زندگی اور اس سے جڑی تمام اقدار اور اس زندگی کے تحفظ کے استحکام کی سوچ میں مسلسل غرق رہتا ہے ۔ سرفراز تبسم ’’ہاتھوں میں آسمان‘‘ لیے ہوئے کل کائنات کی ذمہ داری بھی اپنے سر لئے ہوئے ہے۔اس آسمان کے نیچے صرف ایک زمین ہی نہیں لاکھوں،کروڑوں بلکہ اربوں سیارے موجود ہیں۔سرفراز تبسم بے چارہ حیران ہے کہتا ہے ؎ مجھے بھیجا ہے تُونے کس سفر پر اٹھائے پھرتا ہوں دن رات سر پر بنیادی طور پر سرفراز تبسم کا رویہ مادی اور معاشی دنیا میں صوفیانہ بلکہ ایک روحانی فرد کا ہے اس لئے اس کا تخیل اسے رشتوںکی طرف لے جاتا ہے وہ خدا،انسان،زمین اورکل کائنات سے اپنے رشتوں اور ان سے پیدا ہونے والی اقدار کے اظہار کے لئے درٖخت،پرندے زمین،ہوا ،پانی ،ستارے اور آسمان جیسی علامتوںکو استعمال کرتا ہے شاید استعمال کا لفظ درست نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ ان علامتوں کو اپنی روح میں اس طرح سمو لیتا ہے کہ بعض اوقات پڑھتے پڑھتے آپ اس کے ساتھ فضائوں میں تحلیل ہوجاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کسی سے محبت کے رشتہ میں بندھ جاتے ہیں۔ تم جو کھولو فلک کا در وازہ میںستاروں سے جیب بھرلوںگا فرٖیڈرک ہیگل کہتا ہے’’اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کا ذہن فلک جیسا بنایا ہے‘‘بس ایک شعور کا دروازہ کھولے تو پھر روشنی ہی روشنی ہے اور یہ دروازہ بغیر رشتے کے،بغیر محبت کے نہیں کھلتا،کبھی کھبی اسے دنیا کی حالت پر دکھ آتا ہے وہ کہتا ہے۔ ہر انسان نے اسے میلا کیا ہے میں تنہا بھلا کیسے دھوتا سمندر ،تبسم دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے دکھ اور بے بسی کیساتھ کہتا ہے اس دنیا میں ہر رشتہ کثافتوں سے لتھڑا ہو ہے انسان کی انا رشتوں کی ضد ہے مگر حالات اس کو اس کی اوقات یاد دلا دیتے ہیں ایک جگہ کہتے ہیں ۔ میں بن رہاتھا میں کہ وہ آیا تو میں گیا۔جیسے ہی اس نے چاک گھمایا تو میں گیا واہ،کیا خوبصورت میں کی تکرار ہے،’’میں‘‘ مصرعہ اول میں اور مصرعہ ثانی میں ’’میں‘‘ کے معنی مختلف ہیں، ڈاکٹر علامہ اقبال ہوتے تو وہ تبسم سے کہتے،اوئے بھلیالوکا اپنے فن میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی،تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن ،ہاتھوں میں آسمان لئے سوچتا ہوں میں دریا میں آسمان کو دھونا بھی چاہئے آسمان تو اس کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ زمین اور اس پر ہونے والی ناانصافیاں ،ظلم ،بھوک و ننگ، دشمنیاں، حقارت،تعصب سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ تمام انسان کے دل ہی میں جنم لیتی ہیں اور دل ہی میں محبت کا دریا بھی بہتا ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے ،اس آسمان کو اس دریا میں کیوں دھو نہیں سکتے، دل کی حفاظت ضروری ہے تو زندگی کے سوتے دل ہی سے پھوٹتے ہیں،گھر کی منڈیر سے جو پرندے اڑائیں گے،پیڑوں سے تعلقات کو کیسے نبھائیں گے ،سر پہ جو آسمان ہے روح کاشہر ہے،رستہ بنا لیا ہے اب آئیں گے جائیں گے ،خواب میں سیڑھیاں بناتے ہوئے،چاند سے ہاتھ بھی ملاتا ہوں،زمیں گردش میں ہے تو کیا ہوا ہے،زمیں کے ساتھ میں بھی گھومتا ہوں،دو گھڑی میرا انتظار کرو،میں ستاروں کو چھو کر آتا ہوں،نفرتیں آ گ میں جلانی ہیں،راگ دیپک کی تان ہے، میری اور یوں چلتے جائیں اور سرفرازتبسم کے ساتھ بہتے جائیں،یہ دنیا خواب سی بکھری ہوئی ہے، فلک ساکن زمیں بہتی ہوئی ہے اور پھر یہ کہ مجھ کو اے خداونداآج تو دکھائی دے ورنہ توڑ ڈالوں گا آسمان شیشے کے مگر ڈاکٹر علامہ اقبال نے تو انتہائی عاجزی سے کہا تھا،توہے محیط بیکراں، میں ہوں ذرا سی آبجو،یا مجھے ہم کنار کر،یا مجھے بے کنار کر۔
یورپ سے سے مزید