کراچی(مانیٹرنگ نیوز) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہاہےکہ ایسا کہاں ہوتا ہے مفرور باہر سے بیٹھ کر آرمی چیف لگا دے،جنرل باجوہ کہتے ہیں میں غیر سیاسی ہوں اور سیاست میں مداخلت کرتے ہیں، رجیم چینج میں مدد کی، مجھے نااہل کروانا چاہتے تھے ،جنرل باجوہ کے دور سے زیادہ تشدد کبھی نہیں دیکھا، الیکشن فوج کی ضرورت ،انکے ہتھیاروں کی ایل سیز نہیں کھل رہیں،پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ایک این آر او جنرل مشرف نے دیا تھا دوسرااین آر اوجنرل باجوہ نے دے دیا، راناثناء کی باتوں کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا ،وہ بدمعاش اور جرائم پیشہ آدمی ہے ،ہم نے جو فیصلہ کیا تھا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا وہ ہم کریں گے اور یہ دسمبر میں ہوگا، نواز شریف اگر لاہور آئے تو گرفتار کرلیں گے۔ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہاکہ جنرل باجوہ نے کہا کہ عثمان بزدار کو ہٹائیں ،یہ ایک بڑی عجیب سے ڈیمانڈ تھی کہ آرمی چیف جو وزیراعظم کے ماتحت ہوتا ہے وہ وزیراعظم کو کہہ رہا ہے اپنا وزیر اعلیٰ ہٹائوا ور علیم خان کو بنائو،میں ان سے کہتا تھا کہ اس پر بڑے سنجیدہ کیسز ہیں مجھے ایل ڈی اے نے بتایا کہ اربوں روپے کی زمین پر قبضہ کرلیا ناجائز طریقے سے اور پلاٹ بیچ دئیے ،ظاہر ہے کسی پر ایسے الزامات ہیں تو وہ وزیراعلیٰ تو نہیں بن سکتا پھر جب آخر میں ہم نے کہا ٹھیک ہے انہوں نے اتنا زور لگایا ہمیں خطرہ تھا ہماری حکومت اب گرائیں گے تو سب کو نظر آرہا تھا کہ معیشت کسی سے نہیں سنبھالی جائے گی ہم نے آپس میں ڈسکس کیا کڑوا گھونٹ پی لیتے ہیں اگر ان کی ڈیمانڈ ہے وزیراعلیٰ کو چینج کرو تو کردیتے ہیں کیوں کہ اس اسٹیج پر انہوں نے سازش کامیاب ہوئی اگر گورنمنٹ گئی تو سنبھالا کسی سے نہیں جائے گا، شوکت ترین کو بھی جنرل باجوہ کو سمجھانے بھیجے تھا۔ تو جب علیم خان کا نام لیا ایک علیم خان تھا ایک پرویز الٰہی تھا علیم خان کا جب نام لیا تو پرویز الٰہی نے کہا میں اس کو سپورٹ نہیں کرتا پھر ہم نے پرویز الٰہی کو مدعو کیا،پرویز الٰہی سو فیصد تحریک انصاف سے وفادار ہیں اور ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔میزبان نے سوال کیا کہ ایک اور ذرائع سے مختلف ٹی وی چینلز میں یہ بات چل رہی ہے کہ آپ جب وزیراعظم تھے توجنرل باجوہ کو باس کہہ کر پکارتے تھے اس کا کلیئر کردیں ، اس پر عمران خان نے کہاکہ جو آرمی چیف ہوتا ہے وہ وزیراعظم کے ماتحت ہوتا ہے آئینی طو رپر، میں نے جنرل باجوہ کو بطور کولیگ سمجھا تھا ،شروع میں جنرل باجوہ نے پوری طرح مدد کی کویڈ میں، ہمارا اچھا تعاون تھا بلکہ پرفیکٹ تھا سول ملٹری رلیشن شپ کے اندر جو ہارمنی تھی وہ وہاں تھی مگر جب یہ حد سے نکل جاتے تھے مثلاً میرا وزیراعلیٰ رکھو، اس طرح کے میرے کور کمانڈر رکھو ،انہوں نے کہاکہ میں نے کبھی اپنے پسند کا کور کمانڈر رکھنے کی فرمائش نہیں کی۔میزبان نے سوال کیاکہ فیض حمید سے متعلق بات ہوتی تھی ان کو چیف رکھنا چاہ رہے تھے آپ، یہ بات درست ہے یا غلط؟ اس پر عمران خان نے کہاکہ یہ جان کر مہم چلائی گئی اور میں سمجھتا ہوں پیچھے دیکھتا ہوں سازش تھی باقی امیدوار تھے آرمی چیف بننے کے ان کو یہ تاثر دیا گیا جبکہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کون چیف بنے گا یہ تنازعہ شروع ہوگیا گزشتہ جون سے ، ایک سال پہلے کون سوچتا ہے میری کنٹنشن یہ تھی افغانستان میں جب امریکہ پل آئوٹ کرے گا تو ہماری پرڈیکشن تھی کہ سول وار ہوجائے گی کسی کو نہیں پتہ تھا کہ اچانک افغان فوج شکست کھا جائیگی جو ہوا ہم نے کہا سول وار ہوتی ہے میری کوشش یہ تھی جو ہمارا سب سے بہترین تجربہ کار انٹیلی جنس چیف ہے اس کو ہونا چاہیے،اس کے سارے تعلقات تھے جنرل فیض کے افغانستان میں طالبان سے بات چیت امریکا کے behalf پر یہ کرتے تھے اس کے علاوہ جو سینٹرل ایشین ری پبلک ارد گرد تھی سب کے تعلقات ڈیلوپ تھے اس لیے میں چاہ رہا تھا اور میں نے کبھی نہیں کہا میرا آرمی چیف ہونا چاہیے ، جنرل فیض کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ذاتی ہے لیکن دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا یہ جو سارا ڈرامہ کہ کون ہو رہا ہے، نوازشریف وہاں بیٹھا ہوا ہے ادھر بیٹھ کر ڈرامے ہو رہے ہیں ،ایک مفرور فیصلے کر رہا ہے پاکستان کے آرمی چیف کا، ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔میزبان نے سوال کیاکہ ایک بیانیہ آپ نے بنایا رجیم چینج آپریشن، آپ کو لگتا ہے جو آپ کی نظر میں امپورٹڈ حکومت ہے ان کا پاکستانیوں پر مسلط ہونا اندرونی سہولت کاری کے بغیر ممکن تھا؟ اس پر عمران خان نے کہاکہ بالکل نہیں ہوسکتا ،شاہد خاقان، احسن اقبال، خرم ، مریم چاروں یہ کہہ رہے ہیں کہ کبھی بھی عدم اعتماد کامیابی نہیں ہوسکتی جب تک اسٹیبلشمنٹ کا سر پر ہاتھ نہ ہو تو100فیصد انہوں نے سہولت کاری کی ، جن لوگوں نے رجیم چینج ہونے دیا وہ سب ذمہ دار ہیں، میر جعفر میر صادق ہیں۔میزبان نے سوال کیاکہ گزشتہ روز یہ بات کہی گئی کہ حالیہ آرمی چیف کو گزشتہ آرمی چیف کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں رہنا چاہیے یہ آپ کی خواہش ہے یا مشورہ ہے؟ اس پر عمران خان نے کہاکہ میں بطور پاکستانی بات کر رہا ہوں چیئرمین پی ٹی آئی نہیں ، جنرل باجوہ کہتے ہیں وہ غیر سیاسی ہیں جبکہ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں ،ایکسپرٹیز سیاست میں ہے نہیں لیکن ایکسپرٹ بن جاتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ ایک ہاکی کے کھلاڑی کو کرکٹ کا میچ کھلا دو اور سمجھو اچھا کھیلے گا ان کو یہ بتایا گیا کہ جب عمران خان کو ہٹایا جائے گا تو لوگ مٹھائیں بانٹیں گے اس کی سیاست ختم ہوجائے گی جب یہ نہیں ہوا پبلک سڑکوں پر آگئی ،جب پبلک کا ردِ عمل آیا عقل یہ کہتی تھی آپ کو پیچھا ہٹنا چاہیے تھا فوری الیکشن کروادیتے الٹا انہوں نے ہم پر ہر قسم کا تشدد کیا اس حکومت کے ساتھ مل کر جس طرح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی آپ سے ہوئی میرے ساتھ یہ جو حملہ ہوا ،اعظم سواتی سے جو کیا گیا اور ہو رہا ہے، ارشد شریف سے جو ہوا ،شہباز گل سے ہوا ،باقی صحافیوں سے، سوشل میڈیا کے لڑکوں کو اٹھا لیتے تھے ایسا کبھی پاکستان میں نہیں ہوا ، انسان غلطیاں کرتا ہے پیچھے ہٹ جاتا ہے انہوں نے الٹا کیا اس غلطی کو چھپانے کے لیے اتنی سختی کی کہ جو بھی ان کی مخالفت کرتا تھا اس کو مارنا، دھاڑنا، ڈرانا اور دھمکانا ۔عمران خان نے کہاکہ الیکشن کی ضرورت کس کو ہے ؟تحریک انصاف کو؟ ہمارا تو گراف اوپر جارہا ہے، یہ ڈرے ہوئے ہیں لیکن الیکشن پاکستان اور عوام کی ضرورت ہے کیوں معیشت جس تیزی سے ڈیفالٹ پر کھڑی ہے، ڈیفالٹ کا مطلب ملک پیچھے چلا جائے گا غربت کی انتہا ہوگی روپیہ جب گرے گا مہنگائی اور اوپر چلی جائے گی جن ملکوں میں ڈیفالٹ ہوا ہے اس کو تین چار سال مشکل گزارنے پڑے ہیں ، معیشت اگر اوپر اٹھانی ہے تو سیاسی استحکام چاہیے اور وہ الیکشن سے آئے گا۔