عظیم گلوکار محمد رفیع کے مداح آج اُن کی 98 ویں سالگرہ منا ر ہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں چھوٹے رفیع کے نام سے مشہور سدپارہ گاؤں کے رہائشی فرمان سدپارہ نے محمد رفیع کی سالگرہ کے موقع پر جھیل کنارے محمد رفیع کے مشہور گیت گا کر سماں گرما دیا۔
برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کے مداح 98 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، جن کی مترنم آواز میں گائے ہوئے سیکڑوں گیت آج بھی سننے والوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔
سروں کے شہنشاہ محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے اور 10 سال کی عمر میں استاد عبدالوحید خان سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔
رفیع نے لاہور ریڈیو پر پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی جن کا پہلا فلمی گانا زینت بیگم کیساتھ ریکارڈ کیا گیا۔
فلم جگنو میں ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ ان کا گیت ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ ان کے ہزار ہا یاد گار نغموں میں سے ایک ہے۔
رفیع کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب موسیقار اعظم نوشاد نے فلم’’بیجو باؤرا‘‘ میں انہیں اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع فراہم کیا جس کے بعد ان کے تقریباً تمام نغمے سپر ہٹ ہوئے۔
گلوکار محمد رفیع کو کلاسیکی سے شوخ وچنچل ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت حاصل تھی۔ ’’من تڑپت ہری درشن ‘‘ جیسا کلاسیکی گیت اور’’چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے‘‘ ایسا چنچل نغمہ ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
دلوں پر راج کرنے والے رفیع نے نہ صرف اردو اور ہندی بلکہ مراٹھی، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری اور تامل کے علاوہ کئی زبانوں میں بھی ہزاروں گیت گائے۔
گلوکار محمد رفیع 31 جولائی 1980 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔