• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گردشی قرضہ ڈھائی ہزار ارب روپے، مسائل کا پہاڑ، 8 ماہ میں ختم نہیں کرسکتے، وزیراعظم

اسلام آباد (اے پی پی)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آئندہ سال اپریل سے وفاقی سرکاری عمارات اور دفاتر کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابل تجدید اور سستے توانائی ذرائع پر انحصار وقت کی اہم ضرورت ہے.

 تیل اور گیس کا سالانہ درآمدی بل 27 ارب ڈالر اور گردشی قرضہ 2500 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، پچھلے 30 سال کے دوران توانائی کے شعبے میں اصلاحات نہیں کی گئیں.

 پی ٹی آئی حکومت نے سستا تیل اور گیس نہ خرید کر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا، نیب نیازی گٹھ جوڑ نے احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایا اور ملک کی ترقی و خوشحالی کا راستہ روک دیا، اتحادی حکومت ملک کے معاشی مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہے، آئی ایم ایف کا پروگرام جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو یہاں شمسی توانائی سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مہنگے درآمدی ایندھن کے باعث ملک کو معاشی مسائل کا سامنا ہے

 روس-یوکرین جنگ سے تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جنگ کے نتیجے میں عالمی سطح پر گیس کا بھی بحران پیدا ہوا ہے، امیر ممالک منہ مانگی قیمت پر گیس خرید رہے ہیں، ترقی پذیر مہنگے داموں گیس خریدنے پر مجبور ہیں، گذشتہ مالی سال کے دوران ملک کو 27 ارب ڈالر کا ایندھن اور گیس درآمد کرنا پڑی، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے.

 کورونا وباء کے دوران تیل اور گیس کی قیمتیں کم ہو گئی تھیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے سستا تیل اور گیس نہ خرید کر بدترین غفلت کا مظاہرہ کیا اور ملک کو معاشی مسائل کی طرف دھکیلا جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے سابقہ دور میں قطر کے ساتھ گیس کی خریداری کا 15 سال کا 13 ڈالر فی یونٹ پر معاہدہ کیا گیا تھا، آج دنیا میں گیس دستیاب نہیں ہے، تیل کی قیمت بہت زیادہ ہے.

 سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرقیادت قائم کمیٹی نے چند ماہ میں یہ منصوبہ بنایا کہ ہمیں شمسی اور قابل تجدید ذرائع کے استعمال پر توجہ دینا ہوگی، ہوا، پن بجلی اور شمسی توانائی کے استعمال سے تیل کے درآمدی بل میں کمی لائی جا سکتی ہے.

 مسلم لیگ ن کے سابقہ دور میں دیامیر بھاشا اور داسو ڈیموں پر کام شروع ہوا، اسے تیز کرنے کی ضرورت ہے، یہ طویل المدت منصوبے ہیں جن کیلئے کھربوں روپے درکار ہیں اور یہ چھ سے سات سال میں مکمل ہوں گے، مسلم لیگ ن نے ہزاروں میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کرکے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا، سی پیک کے تحت بھی متعدد پاور پلانٹس لگائے گئے، پورٹ قاسم اور ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کئے گئے.

 2015 میں 20، 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تھی جس سے برآمدات، صنعتوں اور زراعت کو نقصان پہنچا لیکن میاں نواز شریف نے ایل این جی کے پلانٹس لگا کر اس لوڈ شیڈنگ کو 2018 کے الیکشن سے پہلے ختم کر دیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے 30 سال کے دوران توانائی کے شعبے میں کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں اور اس کی ذمہ دار آمریت اور سیاسی حکومتیں بھی ہیں، ہمیں توانائی کے شعبہ میں اصلاحات کرنا ہوں گی، اسی وجہ سے گردشی قرضے کا مسئلہ بھی پیدا ہوا، بجلی چوری، لاسز اور بلوں کی عدم ادائیگی بھی اس میں شامل ہے اور یہ ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے

 گردشی قرضہ اب 2500 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ وفاقی پی ایس ڈی پی 700 ارب روپے ہے جس سے گردشی قرصہ چار گنا زیادہ ہو چکا ہے، آٹھ ماہ کی حکومت 30 سال کی خامیوں کو ختم نہیں کر سکتی لیکن شروعات کرنا ہوں گی اور عزم کے ساتھ کام کرنا ہوگا، قوم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ بدانتظامی اور کرپشن کے علاوہ کیا چیلنج درپیش ہیں۔

 وزیراعظم نے کہا کہ سابق حکومت نے احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایا، بیوروکریسی کے خلاف بھی مقدمات بنائے گئے، نیب نیازی گٹھ جوڑ کا بدترین انتقام اور بربریت فاشزم کے مترادف ہے، ان انتقامی کارروائیوں سے سرکاری افسران کی بھی دل شکنی ہوئی اور اس سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ روک دیا گیا۔

اہم خبریں سے مزید